لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر کے حکم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو سماجی کارکن اور اور استاد عمار علی جان کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔
گزشتہ ہفتے عمار علی جان نے لاہور کے چیئرنگ کراس میں طلبہ یکجہتی مارچ میں شریک ہوئے، جس پر ڈپٹی کمشنر لاہور نے انہیں ’امن کیلئے خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے ایک ماہ کے لیے گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ مارچ کے دوران بھی پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر طلبہ کی مزاحمت پر پیچھے ہٹ گئی۔
ڈپٹی کشمنر نے حکمنامے میں لکھا تھا کہ ’عمار علی جان امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں اور شہر میں امن برقرار رکھنے کے لیے انہیں گرفتار کرنا ضروری ہے۔ انہیں 30 روز تک حراست میں رکھا جائے گا۔‘
عمار علی جان نے ان احکامات کے خلاف پیر کو لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی تھی جس پر آج سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے پنجاب حکومت اور دیگر فریقوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 17 دسمبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔
عمار علی جان نے عدالت کو بتایا کہ اختیار وہ ایک استاد، لکھاری اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ قانون پر عملدرآمد کرنے والے محب وطن پاکستانی ہیں جنہیں غیر قانونی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی 2 مقدمات میں نامزد ہیں جس میں انہوں نے ضمانت حاصل کررکھی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا عمار علی جان کا کوئی کرمنل ریکارڈ ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے روشنی میں کہا گیا کہ ‘کسی بھی شخص کو اس کے خلاف صرف مقدمے کے اندراج پر حراست میں نہیں رکھا جاسکتا’۔
جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ ہر مقدمے میں گرفتاری کی اجازت دے دی گئی تو پاکستان میں جو لوگ طاقتور ہیں وہ اپنے مخالفین کو کہیں نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ عدالت نے پنجاب حکومت کا حکم دیا کہ عمار علی جان کو گرفتار نہ کرے۔ اس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔