ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فنڈز میں کٹوتی کے باعث پشاور یونیورسٹی سنگین مالی بحران کا شکار ہوگئی جس پر ادارے نے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے قرض مانگنا شروع کردیا ہے۔
یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد پشاور یونیورسٹی ملک کی پہلی یونیورسٹی ہے جس کی تعمیر کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے 1948 میں اسلامیہ کالج کے دورے پر کیا تھا مگر اب یہ تاریخی یونیورسٹی شدید مالی بحران کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔
یونیورسٹی حکام کے مطابق حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ملازمین کو جولائی کی تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں جس پر انتظامیہ نے بینکوں سے قرضے لے لئے ہیں۔
یونیورسٹی زرائع کے مطابق ادارہ اس وقت 70 کروڑ کے خسارے سے چل رہا ہے جبکہ یونیورسٹی کے 3 ہزار سے زائد ملازمین اور 1500 سے زائد ہیں جن کے لئے یونیورسٹی کو فوری طور پر 3 ارب روپے درکارہیں۔
حکام کے مطابق بجٹ میں یونیورسٹی کو 400 ملین روپے ملے جس میں ایک ارب 4 کروڑ سے زائد پنشن کی مد میں خرچ ہوئے۔
یونیورسٹی کے ترجمان علی عمران بنگش نے بتایا کہ انتہائی مشکل سے مالی معاملات چلا رہے ہیں۔ ایچ ای سی نے ہمارے فنڈز پر کٹ لگا دی ہے جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت بھی گرانٹ روک دی ہے۔
ترجمان کے مطابق صوبائی حکومت کو مالی بحران سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو یونیورسٹی مزید قرضوں میں ڈوب جائے گی۔
واضح رہے کہ ماضی قریب میں طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ پر ضرورت سے زیادہ بھرتیوں اور منظور نظر افراد کو نواز نے کا الزام لگایا گیا اور طلبہ نے نیب کو تحقیقات کے لئے درخواستیں بھی دی تھیں۔