ہمیں کسی این جی او نے پیسے نہیں دیے
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری باتشاعرمشرق علامہ اقبال نے یہ جملہ یونہی نہیں کہہ دیا ہوگا کسی سے اپنی بات کہنی یا منوانی ہوتواس کے لیے وہی طریقہ اختیارکرنا پڑتا ہے کہ اگلا آپ کی بات سنے، سوچے اور پھرسمجھے۔
دو روزقبل سوشل میڈیا پروائرل ویڈیو میں لاہورمیں ہونے والے پانچویں فیض فیسٹول کے دوران نوجوانوں کا ایک گروہ دائرہ بنا کرڈھول کی تھاپ پرہندوستانی شاعر بسمل عظیم آبادی کی مشہورزمانہ نظم ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ‘‘ لے کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔
کانوں کو سننے اورآنکھوں کو دیکھنے میں ان پرجوش نوجوانوں کی آوازوانداز خاصے بھلے لگ رہے ہیں تو پھر ایسا کیا تھا جو سوشل میڈیا پرایک طوفان امڈ آیا؟ سب کو نظرآئی تو وہ لڑکی جو چمڑے کی جیکٹ پہنے، کجراری آنکھوں اور کھلے بالوں کے ساتھ انتہائی پرجوش اندازمیں اس نظم کا شعر’’ آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے باربار ۔۔۔ آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے ــ پڑھ رہی ہے۔
سوشل میڈیا پرکی جانے والی ٹویٹس میں انہیں برگربچی کہا گیا جسے عام آدمی کے مسائل کا علم نہیں اوران کا لگژری لائف اسٹائل ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی تمام ٹویٹس یافیس بک پوسٹس پراس لڑکی کو نشانہ بنایا گیا جس نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت بول پڑے تو مسئلہ بن جاتا ہے کہ ہائے اللہ، عورت نے بول دیا لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس نے بولا کیا ہے۔
اس لڑکی کا نام عروج اورنگزیب ہے جو پنجاب یونیورسٹی کی فارغ التحصیل اوراب پروگریسواسٹوڈنٹس کلیکٹو، فیمینسٹ کلیکٹو اورحقوقِ خلق تحریک کا حصہ ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عروج نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ پنجابی تھیٹرمیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ان کا تعلق عام متوسط گھرانے سے ہے اورمحنت کے بل پرایک دواسکالرشپس بھی لی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور(جی سی یو) کے ہاسٹل سے کچھ طالب علموں کو نکالنےکیخلاف احتجاج کرنے والوں میں فیمینسٹ کلیکٹو کی عروج بھی شامل تھیں جو اس کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کا حصہ بنیں۔
مقام حیرت کہ عروج کے ساتھ ایک لڑکی اور بھی کھڑی تھی جو عروج کی طرح ہی پورے عزم کے ساتھ نعرے بازی کررہی تھی لیکن وہ کسی کو نظرنہیں آئی؟ نہ کسی ٹویٹ میں اس کی برائی کی گئی، کیوں ؟ ایک جیسا کام کرنے والی ان لڑکیوں کے لباس مختلف تھے لیکن دونوں کی شخصیات میں مشرقی پن نمایاں تھا۔ دوپٹہ نہ لینے والی عروج نے جیکٹ ضرور پہنی لیکن لباس مشرقی تھا جبکہ ان کے ساتھ کھڑی لڑکی کا لباس مغربی تھا تو سرکو اسکارف سے ڈھانپ رکھا تھا۔ یہاں معاشرے کے دہرے رویے سے متعلق سوال ضرور اٹھتے ہیں۔
This is serious sh*t nothing else #faizFestival m Bismil kidhar se agya
ye Ajay devgan ki bhen The legend of Bhagat Singh ka remake krne lgi ha?for all Sarfaroshi's here do some item numbers n show some desi moves too https://t.co/AZBpZ84wir— Rayyan khan (@Rayyankhan0) November 17, 2019
اس تنقید پربی بی سی سے بات کرنے والی عروج نے کہا کہ میری شکل اور حلیے پرنہ جائیں ، ہمارا کوئی مقصد بھی تو ہے، اس پربات کریں۔ یہ اسٹریٹ انٹرٹینمنٹ یا ڈرامے بازی نہیں تھی۔ ہمیں پتا تھا فیسٹول میں کافی لوگوں کو آنا ہے تو یہ ہمارا لائحہ عمل تھا کہ انہیں طلبہ یکجہتی مارچ میں شامل ہونے کی دعوت ایسے دیں گے ہم نے صرف نعرے بازی نہیں کی، اسٹڈی سرکل بھی منعقد کیا، پمفلٹ بھی بانٹے، ہاں اس سب تصویریں وائرل نہیں ہوئیں‘‘۔
عروج کے مطابق ہمارا اورکوئی مقصد نہیں ہے۔ لوگوں کو ابہام ہے کہ پتا نہیں کیا مقصد ہے یا این جی او نے پیسے دیے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں، ’’ہم صرف عام سے انسان ہیں جو اپنی زندگیوں سے تنگ ہیں، خود کشیاں نہیں کرنا چاہتے بس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ ہم غیر طبقاتی معاشرے اور غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی ہوگی تو ہم ایک جیسے بن سکتے ہیں۔ ہم کوئی غلط بات تو نہیں کر رہے نا۔
عروج اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے بانٹے جانے پمفلٹس میں نصف صدی بعد پاکستان کے تمام اداروں میں طلبہ سرکشی کی لہر کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ طلبہ ایکشن کمیٹی کا بنیادی مقصد طلبہ تحاریک کو ایک لڑی میں پرونا ہے۔
طلبہ یکجہتی مارچ کی اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی 29 نومبر کو پاکستان بھرمیں ’’طلبہ یکجہتی مارچ ‘‘ منظم کرنے سے متعلق پرعزم ہے کہ اس سے سماجی گراوٹ کو شکست دیتے ہوئے حقیقی معنوں میں انسانی معاشرہ کا قیام ممکن ہوگا۔
ان کے اہم مطالبات درج ذیل ہیں۔
طلبہ یونین پر سے پابندی ختم کرکے فی الفور ملکی سطح پر طلبہ یونین کے انتخابات کرانا
تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ ، فیسوں میں اضافہ واپس اور مفت تعلیم کی فراہمیحکومت کی جانب سے ہائرایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کی جانے والی کٹوتیاں واپس لیناتعلیمی اداروں میں حلف ناموں کا خاتمہ اور سیاسی سرگرمیوں سے پابندی اٹھاناسیاسی اسیر طلبہ کی رہائی اور تعلیمی اداروں میں سے سیکیورٹی فورسز کی مداخلت بند کرناجنسی ہراسانی کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل اور ان میں طلبہ نمائنگی کو یقینی بناناہاسٹل کے اوقات کار کو طلبہ وطالبات کے لیے یکساں بناناتمام طلبہ کیلئے مفت ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولتطبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے جدید سائنسی تقاضوں پر استوارکرناہرضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کا کوٹہ بڑھانافارغ التحصیل طلبا کو روزگاریا بطور بیروزگار الاؤنس کم سے کم اجرتقوم ، صنف اور مذہب کی بنیاد پرطلبا کے ساتھ تعصب اور ہراسانی بند کرنادوردراز سے اسلام آبادآنے والےطلبا کو ہاسٹل کی فراہمی اور سی ڈی اے کو فوری طور پو پرائیویٹ ہاسٹلز فروخت کرنے سے روکنانظم ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ 1921 میں پٹنہ سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی شاعر بسمل عظیم آبادی نے لکھی تھی، جسے رام پرساد بسمل نے ہندوستان میں برطانوی راج کے دور میں آزادی کی جنگ کی آواز کے طور پر لافانی بنایا۔ یہ نظم سب سے پہلے دہلی سے نکالے جانے والے جریدہ "صباح" میں شائع ہوئی تھی۔