گئے وقتوں کی بات ہے جب پولورایئڈ کیمرہ فوٹوبنانے کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا کیونکہ اس وقت عام کیمرہ سے فوٹو بنانے کامطلب تین سے چار دن کا انتظار تھا کیمرہ سے فلم نکال کر لیبارٹری میں دی جاتی تھی پہلے اسکا نیگٹیو دھل کر سامنے آتا تھا پھر اسکا پرنٹ لیاجاتا تھا اوراسی وقت معلوم ہوتا تھا کہ بتیس میں سے کتنی فوٹوصاف آئی ہیں اور کتنی خراب ہوئی ہیں اور اس سارے عمل میں تین دن تو لگ ہی جاتے تھے پولورایئڈ کیمرے جو کہ آج کل صرف تفریح گاہوں جیسے مینارپاکستان یا شکرپڑیاں جیسی جگہوں پر بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں کیونکہ موبائیل فون میں شاندار کیمرے موجود ہیں مگر یہ کیمرے یورپ میں شادیوں کی تقریب میں خاص کر دلہا اور دلہن کی تصاویر بنانے کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوتے تھے اسکی وجہ وہاں پرجلدی طلاق لینے کی شرح تھی جو کہ اب بھی ہےپولورارئڈ کیمرے سے تصاویر کا پرنٹ لیکر اسی وقت دیکھ لیا جاتا کیونکہ دوسرے کیمرے کی تصاویر لیبارٹری میں آنے سے طلاق کا خطرہ موجود رہتا تھا۔
یہ قصہ بدھ کو فاروق ستار اورمصطفی کمال کے درمیان ہونے والے اتحاد اور جمعرات کو ہونے والے ڈراپ سین پر یاد آگیا اور جمعرات کونہ صرف فاروق ستارصاحب نے اتحاد ختم کردیا بلکہ سیاست کوخیرباد کہنے کا بھی کہا اور یہی نہیں بلکہ پھر وہ سیاست میں واپس بھی آگئے اور جب تک یہ بلاگ لگے گا اس وقت تک کیا ہوتا ہے اس کے لیے پیشگی معذرت۔بدھ کو ہونے والی پریس ٹاک میں فاروق ستار صاحب کافی دباومیں نظرآئے جبکہ مصطفی کمال صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھااور اس دن زیادہ بولے بھی وہ خود ہی۔ مگر جمعرات کو جو فاروق ستارصاحب بولے تو سو سنارکی اورایک لوہار کی کے علاوہ ہالی ووڈ کے ادکار انتھونی ہوپکن یاد آگئےجن کو فلم سائیلنس آف لیمب میں بہترین اداکار کاآسکر ایوراڈ ملا تھااور یہ واحد ایوارڈ ہے جو انتھونی ہوپکن کو سترہ منٹ کی ادکاری پر سپورٹنگ اداکار کا نہیں بلکہ مرکزی کردارکی کیٹگری میں ملا ہےسو فاروق ستار صاحب پر وہ مثال فٹ آتی ہے کہ وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کرلیا رہ گئے بیچارے مصطفے کمال وہ اداکار جاوید شیخ ہیں جن کی ہدایتکاری میں بننے والی تمام فلموں کے پہلے ہاف اچھے ہیں دوسرے ہاف میں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔
خیر یہ سب تو ہلکی پھلکی بات تھی مگرایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین کا اتحاد کچھ ہضم نہیں ہو رہا تھا جس کا سارا فائدہ مصطفی کمال کی جماعت کو تھا اور سراسر نقصان فاروق ستار کی جماعت کو تھاجس کا ردعمل انکے پرانے ساتھیوں کی جانب سے اسی دن آنا شروع ہو گیا تھا۔مصطفی کمال جب سے پاکستان آئے ہیں ان کے ساتھ شامل ہونے والے بیشتر ساتھیوں کی شمولیت کے طریقہ کار پر بہت سے سوالات ہیں کہ انھی بندوں پر دوسری جماعت میں مقدمات بنتے ہیں اور یہاں آکر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ممکن ہے مصطفی کمال کچھباتیں ٹھیک بھی کر رہے ہوں مگر یہ کہنا کہ مہاجر کا لفظ ختم کردیا جائے یا ذکر ہی نہ کیا جائے اس پر قائل ہونا مشکل ہے۔جب سندھ کا سیاستدان سندھی کارڈ استعمال کرسکتا ہےکے پی کے کا نام اور ایک پارٹی کی سیاست پختون کا نام پر سیاست کرسکتی ہے بلوچستان کے بلوچی قومی اسمبلی میں آکر بلوچی میں تقریر کر سکتے ہیں کسی زمانے میں نوا ز شریف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا سکتے ہیں تو مہاجر کو کیوں اس حق سے محروم کیا جائے۔
عدم تشدد کی سیاست ہونی چاہیےقتل وغارت نہیں ہونی چاہیےلسانی بنیادوں پر لڑائی نہیں ہونی چاہیے مگر کوئی بھی کمیونٹی ٹارگٹ بھی نہیں ہونی چاہیے کسی ایک کی وجہ سے کسی پر ملک سے غداری کا الزام بھی نہیں لگنا چاہیے اور کسی کو مہاجر سندھی پنجابی کی بنیاد پر سیاست کرنے سے روکنا بھی نہیں چاہیے یہ سب پاکستان کے پیارے رنگ ہیں اور اگر کسی محب الوطن کو روکا جائے گا تو پھر کوئی دوسرا بندہ انھیں بنیادوں پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرے گا جو ممکن ہےکہ ملک کے لیے واقعی غدار کی حیثیت رکھتا ہو۔