تحریر:عمران خوشحال
اگرچہ ہم سرمائے کے عہد میں زندہ ہیں اور معیشت ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت ساروں کے لیے معاشیات ایک مشکل موضوع ہے۔ شاید اسی لیے جب بھی دہشت گردی پر بات ہوتی ہے تو عموماً اس کے سیاسی اور مذہبی پہلو کو زیرِ بحث اور تحریر لایا جاتا ہے اور اس کے معاشی پہلو کو یا تو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اس کی ہے۔
ایک اٹالین جرنلسٹ اورماہر ِمعاشیات لوریٹا ناپولیونی کے مطابق نائن الیون سے قبل دہشت اورجرم کی عالمی معیشت کا کل حجم ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز تھا۔نائن الیون کے بعد سے اب تک ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں اور آئے روز وجود میں آنے والی تنظیموں کی تعداد دیکھتے ہوئے یہ تنیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ دہشت گردی ایک نفع بخش بلکہ انتہائی نفع بخش کاروبار ہے۔ لیکن ایک عام فہم سی بات ہے کہ زیادہ نفع کے لیے زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔ یعنی اگر دہشت گردی کی معیشت کا حجم اربوں ڈالرز اور اس سے حاصل ہونے والا منافع کم از کم کروڑوں ڈالرزہے تواسی اعتبار سے اس پر کم سے کم سرمایہ کاری بھی لاکھوں ڈالرز میں کی گئی ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی پر لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کس نے کی ،دہشت کی عالمی منڈی پر اجارہ داری کس ہے اور اس سے منافع کس کو ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں سرد جنگ کے عہد کامطالعہ کرنا ہوگا۔بہت سارے لوگ یہ جانتے ہیں کہ سرد جنگ کا عہد پراکسی جنگوں کازمانہ تھا۔امریکہ اور سویت یونین کی لڑائی میں دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک بلاک کو امریکہ مدد فراہم کر رہا تھا اور دوسرے کو سویت یونین۔وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ اس عہد میں امریکہ اور سویت یونین نے بڑے پیمانے پر دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی۔ دونوں عالمی طاقتیں اپنی اپنی کلائنٹ سٹیٹس کو فنڈ کر کے پراکسی جنگوں سے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتی رہیں۔ اور یہیں سے سٹیٹ سپونسرٹیرررازم کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں پراکسی جنگوں میں شامل ریاستوں نے برائے راست دہشت گردوں کی مالی اور عسکری معاونت کی ۔ اور اس کے دور رس اثرات مقامی حکومتوں اور آبادیوں پر بھی پڑے۔
سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کے انہدام سے پہلے دہشت گردی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری عالمی اور مقامی ریاستوں نے ہی کی لیکن اس کے بعدمعیشت کی گلوبلائزیشن سے دہشت گردی کی معیشت بھی گلوبلائزہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب غیرریاستی عناصر نے ریاستوں سے دہشت گردی کی معیشت کی اجارہ داری چھین لی۔ اگرچہ آج بھی دنیا کی کئی ریاستیں دہشت گردوں کی کسی نہ کسی طرح معاون ہیں لیکن دہشت گردی کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ اور اب یہ معیشت کارپوریٹ مافیاز، کالعدم تنظیموں اور روگ ایجنسیوں کےکنٹرول میں ہے ۔لیکن فنڈنگ اور سپونسرنگ دہشت گردی کی معیشت کا صرف ایک پہلو ہے، دہشت کے معاشی نظام کی بے شمار جہتیں ہیں۔ بعض کا تعلق خالصتاً معاشی سرگرمیوں سے ہے جبکہ بعض کا تعلق سیاسی معیشت سے۔ بعض شکلوں میں دہشت اور سرمائے کا تعلق بہت واضح اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے جبکہ بعض شکلوں میں یہ انتہائی پیچید ہ اور نہ سمجھ آنے والا ہے۔
میرے خیال میں جو کوئی بھی دہشت گردی کی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کرے اس کے لیے بہترین نقطہِ آغاز یہ ہو سکتا ہے کہ کیا ناہموار معاشی حالات دہشت گردی کا محرک ہو سکتے ہیں؟۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ کیا غربت کسی انسان کو دہشت گرد بنا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا دہشت گرد بنیادی طور پر غریب ہوتے ہیں؟
جاری ہے۔۔۔۔۔