نیب کا ایک قانون ایسا بھی ہے جس پر 20 سال سے عمل ہی نہیں ہوسکا۔ اِس قانون میں واضح کہا گیا ہے کہ ہر کرپشن کیس کا فیصلہ 30 دن کے اندر کرنا ہوگا لیکن آج تک ایک بار بھی ایسا ہوا نہ ہی کسی فورم پر اِس کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
اکیس سال پہلے جب نیب کا ادارہ بنایا گیا تھا تو ایک قانون اس میں شامل کیا گیا کہ کرپشن کیس بنے گا تو سماعت روزانہ ہو گی اورزیادہ سے زیادہ 30 دن کے اندر فیصلہ سنایا جائے گا،قومی خزانہ لوٹنے کا جرم ثابت ہونے پر سزا ملے گی تاہم 20 سال میں عملی طور پر ایسا ایک بار بھی نہ ہوا۔
نیب آرڈیننس کی سیکشن سولہ اے نے سادہ اور آسان لفظوں میں مدت بتا تو دی لیکن عدالتیں کم اور مقدمات زیادہ ہونے کے باعث بس تاریخ پر تاریخ ڈلتی رہی۔
احتساب بیورو نے کبھی کہیں جاندار آواز اٹھائی ، نہ ہی عدالتوں نےاس قانون کو قابل عمل سمجھا۔روزانہ کی بنیاد پرسابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی تب بھی فیصلہ ہونے میں 9 ماہ لگ گئے۔
نیب کی جانب سے بروقت تفتیش مکمل نہ ہونےسےبھی مقدمات لٹکتے رہے۔ضمنی ریفرنس دائرکرنے کےلئے مہینوں مہلت لی جاتی ہے۔
اس وقت اسلام آباد کی 3 احتساب عدالتوں میں اس وقت بھی 100 سے زیادہ نیب ریفرنسز زیرِ سماعت ہیں اور ان میں چھ،چھ سال پرانے ریفرنس بھی شامل ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں ایک سال سےفرد جرم عائد نہ ہوسکی۔