مشرق وسطی میں یمن کا سلگتا ہوا بحران
اسٹاف رپورٹ
صنعا : يمن ميں حوثي باغيوں نے دارالحکومت صنعا سے حکومت کي چھٹي کرائي تو خطے ميں خطرے کي گھنٹي بج گئي۔
يمن ميں سياسي بحران کا آغاز دو ہزار گيارہ ميں ہوا، جب صدر صالح کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ چل پڑا، اس کے نتيجے ميں صدر صالح کو عہدہ چھوڑنا پڑا، اور اکيس فروري دو ہزار بارہ کو نائب صدر منصور ہادي نے گدي سنبھال لي۔
جنوري دو ہزار چودہ ميں صدر ہادي کے عہدے کي ميعاد ميں اضافہ ہوا، تو نئے بحران نے جنم لے ليا، اسي دوران حوثي باغيوں اور اسلامي جماعت اصلاح ميں جھڑپيں شدت اختيار کرگئيں، ستمبر دو ہزار چودہ کو حوثيوں نے صنعا پر قبضہ کرليا، اور اصلاح کے سربراہ المحسن الاحمر صنعا چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
اتحادي حکومت کا قيام عمل ميں آيا، يمن کو انتظامي طور پر چھ حصوں ميں تقسيم کرنے کا ڈرافٹ پيش ہوا، تاہم حوثيوں نے اس ڈرافٹ کو ماننے سے انکار کرديا۔ بھڑتي کشيدگي کے باعث بائيس جنوري دو ہزار پندرہ کو صدر ہادي اپني کابينہ سميت مستعفي ہوگئے، تين ہفتے بعد حوثيوں نے اپني عليحدہ حکومت کا اعلان کيا اور عبدالمالک حوثي کو ليڈر نامزد کر ديا۔
اکيس فروري کو صدر ہادي نے اپنا استعفيٰ واپس لے ليا، اور دعويٰ کيا کہ وہ اب بھي ملک کے آئيني صدر ہيں، عدن کو وقتي دارالحکومت قرار ديا گيا، اور صدر ہادي نے انتظامي امور سنبھال لئے، ہادي کے اعلان کے بعد حوثيوں نے عدن کي جانب پيشقدمي شروع کردي، بگڑتے حالات کے پيش نظر صدر ہادي نے عدن چھوڑکر سعودي عرب ميں پناہ لے لي، سعودي عرب نے چھبيس مارچ کو متحدہ عرب امارات،کويت،قطر،بحرين،اردن،مراکش،سوڈان اور مصر کے ساتھ مل کر حوثي باغيوں کے خلاف آپريشن کا آغاز کرديا، جو اب بھي جاري ہے۔ سماء