بچوں کی نفسیات
تحریر: بشریٰ محمود
بچوں کی نفسیات کو سمجھنا والدین کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر بچہ دوسرے بچے سے مختلف ہوتاہے۔
اللہ تعالی نے ہر انسان کو الگ الگ خوبیاں عطا کی ہیں۔ ہر بچے کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں تو انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کی ایک اپنی الگ شخصیت بن جاتی ہے۔ کبھی اپنے بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔
بچوں کو سمجھنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ مشاہدہ کریں کہ آپ کا بچہ کس طرح سوتا ہے؟ کس طرح کھاتا ہے؟ کس طرح کھیلتا ہے؟ کون سی ایسی سرگرمی ہے جو وہ سب سے بہترین کرتا ہے؟
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، ان سے باتیں کریں، انہیں اچھی اچھی باتیں بتائیں، جو علم اور معلومات آپ کے پاس ہیں وہ اپنے بچوں کو دیں کیونکہ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ ہر بات جلدی سیکھ لیتا ہے اور اسے وہ باتیں اللہ تعالی کے حکم سے ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں کیونکہ جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو بچوں کو ایک بہت خوبصورت احساس محسوس ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم کریں اور اںہیں اعتماد دیں تاکہ بچے آپ کے ساتھ اپنی باتیں شئیر کریں۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نہ صرف خود وقت دیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ گھر میں سب بچوں کے ساتھ روزانہ مل کر کھیلیں۔ اگر آپکا بچہ اکلوتا ہے تو آپکو چاہیے کہ آپ مختلف موقع پر اپنے دوستوں اور اپنے خاندان والوں کو اپنے گھر پر بلائیں۔ کچھ بچوں کےاندر سماجی مہارت آسانی سے پیدا ہوجاتی ہے اور کچھ بچوں کہ اندر سماجی مہارت آسانی سے پیدا نہیں ہوپاتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے بچوں کے اندر سماجی مہارت آسانی سے پیدا ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر آپکے بچے باقی اور بچوں کے ساتھ آسانی سے گھلتے ملتے نہیں ہیں تو والدین کو چاہیے کہ انہيں وقت ديں ان پر زبردستی نہ کریں کہ وہ آپکے دوستوں اور خاندان والوں کے بچوں کے ساتھ کھیلیں، بلکہ آپ انہیں مختلف موقع پر بلاتے رہیں، کچھ وقت بعد بچے خود آہستہ آہستہ ان کے ساتھ گھلنے ملنے لگتے ہیں۔

بچپن میں بچے اپنے والدین سے بہت سی فرمائشیں کرتے ہیں۔ والدین کو بچوں کی خواہشات پوری کرنی چاہیے لیکن ہر خواہش نہیں اور نہ ہی ہر خواہش فورا پوری کرنی چاہیے۔
اگر بچے کی ہر خواہش پوری کردی جائے تو وہ ہمیشہ یہی توقع کرتا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری ہوجائے گی اور پھر بچے کے اندر یہی عادت پیدا ہوجاتی ہے، جو آگے جا کر بچوں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہے خاص طور پر لڑکیوں کے لیے۔
اگر والدین لڑکیوں کی ہر خواہش پوری کردیں تو ان کے اندر صبر کا مادہ کم ہوجاتا ہے اور پھر کل کو جب ان کی شادی ہوتی ہے تو وہ پھر اپنے شوہر سے بھی یہی توقع کرنے لگتی ہیں کہ میں جو خواہش کروں گی میری فورا پوری کردی جائے گی اور اگر شوہر اس کی خواہش پوری نہ کر سکے یا کچھ وقت بعد پوری کرنے کو کہے تو چونکہ بچپن سے ان کی ہر خواہش پوری ہونے کی وجہ سے ان کے اندر صبر کا مادہ کم ہوجاتا ہے تو وہ یہی چاہتی ہیں کہ ان کی ہر خواہش اسی وقت پوری کی جائے جس سے مسئلے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور رشتہ خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اگر لڑکوں کے اندر یہ چیز پیدا ہوجائے کہ ان کی ہر خواہش ان کے والدین اسی وقت پوری کردیں گے، تو لڑکے بڑے ہونے کے بعد پہلے اپنے والدین سے یہی توقع رکھتے ہیں اور پھر بعد میں جب خود کمانے کے قابل ہوتے ہیں تو چونکہ بچپن سے ان کی ہر خواہش پوری ہونے کی وجہ سے ان کے اندر بھی صبر کا مادہ پیدا نہیں ہوپاتا تو وہ اپنے سارے پیسے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں اور پھر اس طرح ان کو پیسے بچانے کی عادت نہیں پڑتی، جو ان کی ضرورت پڑنے پر ان کے کام آسکے۔
خود اعتمادی زندگی میں کامیاب ہونے کی سب سے اہم چابی ہے۔لیکن ذاتی مثبت خیال اور صحت مند خود اعتمادی ہی ایک انسان کو کامیابیوں اور خوشیوں کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔