کالمز / بلاگ

بلوچستان میں صحافت کا شعبہ روبہ زوال آخر کیوں؟

قلم تلوار اور بندوق سے زیادہ خطرناک ہے بندوق ایک شخص کو مار دیتا ہے جبکہ قلم برداری سے ایسی جنگیں برپا ہو جاتی ہیں جو نسلوں کی نسلوں کو صدیوں تک تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔صحافت کا شعبہ انبیاء کرام سے وابستہ ہے اس لیئے اسلامی ملک پاکستان میں یہ شعبہ چوتھا ستون مانا جاتا ہے یہ میڈیا ہی ہے جو کسی زیرو کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنا سکتا ہے میڈیا کے طاقت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کب ترقی دے گا اور کب تنزلی دے گا ۔ جی ہاں وہ بھی میڈیا ہی کی طاقت تھی جس نے صرف ایک ہی رات میں اسلام آباد کے چائے بنانے والے کو فواد خان کے برابر لا کھڑا کردیا ۔ اس وقت پاکستان کا چوتھا ستون میڈیا ضرور بنا ہوا ہے لیکن پورے بلوچستان میں ﺻﺤﺎﻓﺖﮐﺎﺷﻌﺒﮧﺳﺐﺳﮯزیادہ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ شعبہ بن چکا ہے جسکی کئی مثالیں بلوچستان کی سر زمین پر موجود ہیں۔

آج تک صوبہ بلوچستان میں پچاس کے لگ بھگ ﺻﺤﺎﻓﯽ راہ حق میں اپنی آواز بلند کرتے ہوئے شہید ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ہیں جبکہ متعدد صحافی بم دھماکوں و فائرنگ کے مختلف واقعات میں شدید زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان میں اکثریت صحافیوں کو ٹارگیٹ کلنگ کرکے شہید کیا گیا اور جبکہ متعدد صحافی بم دھماکوں کے واقعات کی کوریج کرتے ہوئے بریکنگ نیوز خود بن گئے۔ پورے بلوچستان میں درجنوں صحافیوں کو قتل کرنےاور سنگین نتائج بھگتنے کی بھی دھمکیاں دی گئی ہے جس کے سبب متعدد صحافیوں نے بلوچستان میں صحافت کے شعبے کو خیرباد کر دیا ہے اور بلوچستان سے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرکے مختلف صوبوں کا رخ کیا ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے ۔

بلوچستان کے صحافیوں کے قلم میں بہت طاقت ہے ایک دو لائن کے خبر کے ساتھ معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں صحافیوں کی محفل میں ہمیشہ ایم پی اے اور ایم این اے بہت سنبھل سنبھل کر بات کرتے ہیں۔ بلوچستان کامظلوم صحافی قلم ہاتھ میں رکھ کر رپورٹنگ کرتے ہوئے نہایت احتیاط کرتا ہے یہی احتیاط اس کا ہتھیار ہوتا ہے حتاکہ کبھی بلوچستان کے صحافیوں نے کسی بھی چینل یا اخبار کے خلاف ہڑتال تک نہیں کیا ہے ہاں ضرور ایک اخبار یا نیوز چینل کو چھوڑ کر دوسرے چینل یا اخبار میں چلے گئے ہیں جسکی وجہ تنخواہ کا کم ہونا ہے۔ ہمیشہ بلوچستان کے صحافیوں نے محنت لگن اور جانفشانی کے ساتھ اپنا کام بہتر سے بہترین کرنے کی کوشش کی ہے.اور اس کوشش میں اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا ہے بلوچستان کے صحافی ہمیشہ اپنے فرائض مکمل طور پر غیر جانبداری سے انجام دیتے رہے ہیں اور اسی غیر جانبداری کی وجہ سے بڑی بڑی قربانیاں بھی دے چکے ہیں۔

بلوچستان میں ماضی کے صحافت کا موازنہ اگر حال سے کیا جائے تو بہت فرق نظر آئے گا ماضی میں سوشل میڈیا صحافیوں سے بہت دور تھا مگر حال میں سوشل میڈیا نے بہت سے صحافیوں کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر دیا ہے پہلے زمانے میں نامہ نگاروں کی خبریں فیکس اور ٹیلی فون کے ذریعے دی جاتی تھی مگر آج کل کے جدید دور میں یہ کام انٹرنیٹ کی جدید سہولیات نے آسان کر دیا ہے چھٹ خبر بھیجی پٹ خبر ویب سائیٹ پہ لگ گئی لیکن پھر بھی کچھ صحافیوں نے ذاتی مفادات کو ترجع دی ہے اس طرح کی صحافت کے بجائے اصولی صحافت اپنائیں اور صحافتی اقدار کو تار تار نہ کریں اور اپنے قلم کی حرمت کو یوں سرے بازار رسوا نہ کریں۔ بلوچستان کے صحافی پاکستان کو ایک ترقی پسند ریاست بنانے کے خواہشمند ہیں جہاں آئین کے تحت اظہار رائےکی آزادی یقینیی ہو آئیں ہم سب ملکر کر قلم کی حرمت کو برقرار رکھیں تاکہ پورا پاکستان خوشحال اور امن کا گہوارہ بن جائیں۔

JOURNALIST

Tabool ads will show in this div