فیض آباددھرنا:آپریشن کیوں ناکام ہوا؟سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع

اسلام آباد:پوليس نے فيض آباد دھرنے کیخلاف آپريشن سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ رپورٹ ميں سيکيورٹي اداروں کے درميان رابطے کے فقدان ہونے کا بھي اعتراف کرلیاگیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد محفوظ نہيں تو باقي ملک کيسے ہوگا ۔ جسٹس فائز عيسيٰ نے سوال اُٹھايا يہ سب کس کا ايجنڈا ہے ۔ کسي نہ کسي کو تو عدالت کو بتانا ہوگا ۔ کوئي غلط فہمي ميں نہ رہے ۔ سرکار کا پيسہ عوام کا ہے، نتائج اور مقاصد کيلئے دھرنا دينا لازم ہوگيا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے فیض آباد دھرنے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔ کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پرمشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ آئی جی اسلام آباد کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلسل بيس دن تعيناتی کي وجہ سے پوليس تھک چکي تھي ۔ آپریشن میں تقریبا ساڑھے 5 ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا۔ کھلي جگہ ہونے کے باعث آنسو گيس کے شيل بھي اثرانداز نہ ہوسکے جبکہ پولیس کے مذہبی جذبات کو بھی ابھارا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہونے پر 80 فیصد علاقہ کلیئر کرا لیا گیا تھا لیکن احتجاجی مظاہرین ڈنڈوں ۔ پتھروں اور دیگر آلات سے لیس تھے جب کہ راولپنڈی سے بھی تازہ دم مظاہرین پہنچتے رہے اور ڈنڈوں اور کلہاڑوں سے مسلح افراد نے پولیس پرحملہ کیا۔ ملک بھر میں ہنگاموں کے باعث آپریشن روکنا پڑا۔ شدید مزاحمت کی وجہ سے فوج بھی بلانا پڑی۔ آپریشن کے دوران 173 پولیس اہلکارزخمی بھی ہوئے ۔

رپورٹ میں میڈیا پر ملبہ ڈالتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ بار بار ڈیڈ لائن نشر ہونے کے باعث مظاہرین تیار تھے جبکہ پولیس ایف سی اور رینجرز کی مشترکہ تعیناتی بھی مسئلہ بنی ۔ چاروں صوبوں سے فورسز بھی مانگی گئی تھیں لیکن پولیس کو ایسی مدد نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی، مختلف سیکیورٹی اداروں میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔

واضح رہے کہ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کیلئے شروع کیا جانے والا دھرنا اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 21 روز تک جاری رہا۔

سپریم کورٹ نے حساس اداروں کو بھی دھرنے سے معتعلق رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ سماء

SUPREME COURT OF PAKISTAN

islamabad police

Faizabad Interchange

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div