باشعور سیاستدان اور بے شعور عوام
تحریر: عمران احمد راجپوت
پچھلی چار دہائیوں سے وفاقی کی مین اسٹریم سمجھی جانے والی قومی سطح کی دونوں جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جنھوں نے اِسی وفاق کے کاندھے پر اپنی سلطنتیں قائم کیں اور آج بھی اپنے دفاعی آستانوں میں اطمینان وسکون کے ساتھ بیٹھیں ایک مدت پوری ہونے کی خواہش لئے گدی نشین ہے تو دوسری مدت پوری ہونے کے انتظار میں گوشہ نشینی اختیار کئے ہوئے ہے۔ میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے عوامی سطح پر یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی جارہی کہ یہ دو جماعتیں جو پچھلی چار دہائیوں سے باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں عوام میں اپنی مقبولیت کھوچکی ہیں۔ لہذا عوام اب کسی نئی تبدیلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں جماعتوں کو مزید کمزور کرنے کی غرض سے روز روز نئے سیاسی اتحاد تشکیل پاتے نظر آرہے ہیں۔ زندوں کو مردہ اور مردوں کو زندہ کیا جارہا ہے لیکن میں ذاتی طور پر اِس رائے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ میرے نزدیک زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔
مستقبل قریب میں دیکھیں گے جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آتا جائے گا دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے اپنے محلوں میں سیاسی منڈی سجائے نظر آئینگے۔ جہاں چھوٹے بڑے تمام سیاستدان اپنے بھرپور جوبن کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں سیاستدان برائے فروخت کا پلے کارڈ اٹھائے اپنی بولی لگوائیں گے۔ جو پارٹی جتنی اچھی بولی لگائے گی انہی کے ہاتھوں اپنے ووٹروں کا سودا کر بیٹھیں گے جبکہ ہمارے سیاسی قائدین اپنے دلوں میں خوابِ اقتدار کی شمع روشن کئے غریب عوام کے ووٹوں کے بدلے سیاسی منڈی میں موجود سیاست دانوں کو حصولِ اقتدار سے پہلے ہی وزارتوں سفارتوں کے دم بھرتے ہوئے پاکستان کی بھولی بھالی غریب عوام سے الیکشن کے دن ان ضمیر فروشوں کی سلیکشن کروائیں گے بلکہ باز جگہوں پر تو یہ فریضہ بھی خود ہی انجام دے لینگے اورشام ڈھلتے ہی سلیکشن زدہ الیکشن میں اپنی کامیابیوں پر ڈھول بجاتے بھنگڑے ڈالتے اسلحے کے زور پر موت کا رقص کرتے غریب عوام کو منہ چڑاچڑا کر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔ لو بھئی ہوگئے الیکشن، آگئی تبدیلی، چھاگئی جمہوریت اور اس طرح ایک بار پھر سے جمہوریت اُسی آب وتاب کے ساتھ پھلے پھولے گی جیسے ابھی پھل پھول رہی ہے۔ عوام بے چاری سوکھتی جائے گی اور جمہوریت پھولتی جائے گی۔
آنے والے الیکشن کے بعد نئی حکومت چاہے کسی کی بھی بنے جمہوریت من وعن اسی طرح پھلے پھولے گی جس طرح آج پھل پھول رہی ہے جبکہ عوام پی آئی اے کے سلوگن باکمال لوگ لاجواب سروس کی طرح پڑھے لکھے لوگ بےشعور عوام کا سلوگن اپنائے "صُماً بُکماً" کی پالیسی پر پہلے ہی سے عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی باری کا انتظار کرنے والی جماعت بڑے اطمینان کے ساتھ کچوے کی چلن اختیار کئے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے۔
اِس اطمینان بخش خاموشی کی وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں پتا ہے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جب وقت آئیگا اپنی پٹاری سے نسخِہ خاص نکال کر "کن فیکن" کا ایسا منتر پھونکیں گے کہ عوام عرصوں پر محیط ماضی منٹوں میں بھلا کر مزید اگلے پانچ سال کے لئے اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ہمیں سونپ دینگے۔ بس ایک کو بھٹو زندہ کرنے کی ضرورت ہوگی دوسرے کوآمریت کا رونا اور جمہوریت کا گانا گانا ہوگا باقیوں کو نئے صوبوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانا ہوگا۔ جس کے بعد عوام مزید پانچ سال کیلئے قید ِبا مشقت کی سزا پاتے ہوئے انگریزوں کے زمانے کے لیڈروں کے ہاتھوں یرغمال بنے اپنی قسمت کو کوستے رہیں گے۔ اِس لئے میڈیا چاہے کچھ بھی کہتا رہے صحافی حضرات کہیں کا بھی زور لگالیں عوام کو کتنا ہی جگالیں وقت آنے پر یہ ڈگ ڈگی کی تھاپ اورجمہوریت کی دھن پر ایسا فوک گیت گائیں گے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے باشعور عوام مدہوش ہوکر رقص کرتے نظر آئینگے۔