کوتاہ قامت لوگ

آج کھانا بنانے کے لیے میں مٹر چھیل رہی تھی، ایک دم سبز اور دانوں سے بھرے ھوئے مٹر،مگر ایک مٹر کو کھولتے ہی اسے میں نے پرے پھینک دیا۔کیوں کہ اس کے اندر بھر بھرا سا مواد اور سبز رنگ کی سنڈی تھی۔اس کا چپچپا سا وجود مجھے عجیب سا لگ رہا تھا۔کراہت آمیز۔ پھر مجھے اپنے خالق کا خیال آیا۔جو ھم انسانوں کو اندر تک جانتا ھے۔اسے ہمیں کھول کے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ھے۔وہ جانتا ھے کون اندر سے بھرا بھر ھےصاف نیت ھے اور کون اندر سے کتنا کراہت آمیز ھے۔بظاہر صاف ستھرے اور معزز نظر آنے والے ھم انسان اندر سے کیا ھوتے ھیں۔وہ جانتا ھے اس لیے فرماتاھے کہ تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ھے جو پرھیزگار ھے۔

معاشرتی لحاظ سے دیکھا جائے تو دولت اور رتبہ انسان کے معزز ھونے کے داعی ھیں مگراگر ضرورت سے زیادہ مل جائیں توانسان کی آزمائش بن جاتے ھیں۔وہ خود کو مالک کل سمجھنے لگتا ھے۔مالک کل ملک سے زیادہ خود کو اہل سمجھنے لگتا ھے۔حالانکہ اگر وہ چاہےتو نا اہل ہونے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔۔بہت بارتبہ انسان مٹر کے دانے کی طرح پست قامت لگنے لگتا ھے۔۔جو چیز ضرورت سے زیادہ ھو گی وہ لازم ھے کہ تنگ کرے گی چاہے وہ علم ھو یارتبہ یا دولت یا حد سے بڑھی ھوئی جہالت بھی تنگ کرتی ھے۔

ایک حد سے بڑھی جہالت کا کامل نمونہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دیکھنے کو ملا کہ انسان اپنے مقام آدمیت سے گرے تو انسان تو جانور سے بھی بدتر لگنے لگتا ھے۔ایک نوجوان لڑکی کو ایک نا کردہ گناہ کی پاداش میں برہنہ کر کے گاؤں میں گھمایا گیا۔اسے کسی نے پناہ نہیں دی۔کسی نے ظلم کو ھونے سے نہیں روکا۔کسی کو حوا کی بے بس بیٹی پہ ترس نہیں آیا وہ مدد کے لیے پکارتی رہی۔مگر ویڈیوز بنانے میں مصروف لوگ اس کی مدد کو کیسے آتے۔وہ محمد بن قاسم تو تھے نہیں کہ اس کی آواز پہ لبیک کہتے ھوئے اس کی دادرسی کو آجاتے۔اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس کے ماں جائے نے کسی کی بیٹی کو پسند کرنے کی جرات کی تھی اور اس جرات کا جرمانہ بھی ادا کر دیا گیا مگر پھر بھی مٹر کے دانے جیسی قد وقامت رکھنے والوں کی سیری نہ ھوئی ان کی انا کو ڈھارس تب ملی جب حوا کی بیٹی سے بہیمانہ سلوک کیا۔

اکثر جگہوں پہ علم کی روشنی تو درکنار مذہبی تعلیم کا بھی کوئی تصور نہیں ھے۔یہ حکومتی فرض تو ھے مگر علماءوقت کا بھی فریضہ ھے کہ وہ دین اسلام کی تعلیمات کو پھیلائیں۔خون کا بدلا خون اور غیرت کے تقاضوں کی رسمیں نبھانا ضروری نہیں ھے۔اور اگر علمائے وقت اپنا فریضہ ادا کرنے سے قاصر ھیں تو آپ خود اھدنا الصراط مستقیم کی عملی تفسیر بن جائیں۔کوئی شمع اپنے حصے کی بھی جلائیں جیسےایک غریب درزی تھا۔اس کی یہ عادت تھی کہ جب بھی کوئی جنازہ گزرتا تو وہ اپنی دوکان بند کر کے اس میں شرکت کرتا۔لوگ اس سے اس کے اس عمل کی وضاحت پوچھتے تو وہ کہتا کہ میں تو غریب آدمی ھوں میرے جنازے میں کس نے آنا ھے شاید میرے اس عمل سے ھی کوئی میرے جنازے میں بھی آجائے۔اور پھر واقعتا ایسا ھوا جب وہ مرا تو اس سے پہلے ایک ممتاز عالم دین کا جنازہ تھا جس میں کچھ لوگ دیر سے بھی شریک ھوئے اور شرکت کرنے سے رہ گئے تھے اتنی دیر میں درزی کا جنازہ بھی تیار تھا تو اعلان ھوا کہ اس کا جنازہ بھی پڑھ لیا جائے توان لوگوں نے اس کا جنازہ بھی پڑھ لیا یعنی اس کا جنازہ اس عالم کے جنازے بھی بڑا تھا۔اس کی ایک معصوم سی خواہش رب تعالی نے اس کے گمان کے مطابق پوری کی.

مگرھم اپنے رب سے جانے کون سے گمان رکھے ھوئے ھیں یا ھم خود کوھی خدا سمجھ بیٹھےھیں۔ شاید ہم گروہ جہلا سے تعلق توڑنا ھی نہیں چاہتے۔علم کے چراغ جلانے کے لیے خود چراغ بن کے جلنا پڑتا ھے۔ کوئی اتنی ہمت تو کرے، نیت میں ریاکاری عمل میں دکھاوا تو یہ نیکیاں چٹان پہ جمی مٹی کی طرح بہہ جائیں گی جب بنجارہ لاد کے چلے گا تو ہاتھ میں کیا ھو گا ۔۔ خالی ہاتھ۔

میں نے اپنی ہتھیلی کو پھیلا کے دیکھا جہاں مٹر کے دانے دھرے تھےسبز سے دانوں سے بھرے اورکچھ بھربھری مٹی کی طرح خالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

DI khan

sexual harrasment

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div