جنسی ہراسانی اور پرولج

تحریر : ****منروا****

یہ ایک طنزیہ تحریر ہے۔

'مجھے 700 سے زائد جنسی ہراسانی کی ریکویسٹ آ چکی ہیں بھائی۔' 'ویسے ہی اپنی سیٹنگ نہیں ہو رہی تھی، اوپر سے اس شرمین کی وجہ سے بچے کچے چانس بھی ہاتھ سے جانے کا ڈر ہے۔' 'بے- شرم-ین کی لاجک کے مطابق فرنڈ ریکویسٹ اگر جنسی ہراسانی ہے تو کسی لڑکی کے لئے رشتہ بھیجنا تو زنا بالجبر ہو گیا۔'

شرمین اور ڈاکٹر والے واقعہ کے بعد اس طرز پہ لکھے گئے مختلف جملے آپ سب کی نیوز فیڈ اور ٹویٹر ٹائملائن پر نظر سے گزرے ہوں گے۔ عورتوں کو ان جملوں پر حیرت نہیں ہوتی۔ مردوں کو شرم بھی نہیں آتی۔ مردانگی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ پتہ نہیں یہ فیمنسٹ خواتین کا مسئلہ کیا ہے۔ جنسی ہراسانی ہمارے معمول کا ایک نارمل حصہ ہے اور ہمیں اسے کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ عورتیں اکثر ایک دوسرے کو جنسی ہراسانی کے واقعات سے آگاہ کرتی ہیں اور اختتام اس جملے پر ہوتا ہے: 'اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، جانے دو۔' مرد کیا کرتے ہیں، اس کا براہ راست منظر دیکھنے لئے شہر کی کسی بھی سڑک پر تنہا کھڑی عورت کے آس پاس گزرتے مردوں کا رویہ دیکھ لیجئے۔ مردوں کی اس قدر پرخلوص توجہ کے باوجود ہم عورتیں ہراسمنٹ کا رونا روتی رہتی ہیں، حیرت ہے۔ چند دنوں پہلے ایک پول میں کراچی کو خواتین کے لئے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں دوسرے نمبر کی رینکنگ کا شرف حاصل ہوا۔ رپورٹ ٹھامسن رائٹرز فاونڈیشن کی تھی۔ ایسے میں شرمین عبید چنائے نے اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی پر آواز اٹھا ڈالی۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال کی ایمرجنسی میں ان کی بہن نے علاج کروایا۔ جس ڈاکٹر نے شرمین کی ہمشیرہ کا علاج کیا، اس نے انہیں فیسبُک پر نہایت خلوص کے ساتھ فرینڈ رکویسٹ بھیج ڈالی۔

کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ اے کے یو نے اس ڈاکٹر کو سسپینڈ کر دیا ہے۔ پھر سامنے آیا کہ اے کے یو میں موصوف کے خلاف مختلف لوگوں کی شکایات کے سبب انکوائری جاری تھی۔ یاد رہے کہ انکوائری شرمین کی بہن کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے پہلے سے جاری تھی۔ کیا کیا ستم سہنے پڑتے ہیں مردوں اپنے خلوص کے صلہ میں!

ڈاکٹر کے سسپینڈ ہونے پر پاکستانی مردوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور سوشل میڈیا پر یکجا ہو کر تمام مردوں نے ناقص العقل مستورات کو یہ بتانے کا بیڑا اٹھایا کہ ڈاکٹر کا فرنڈ ریکویسٹ بھیجنا جنسی ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ خواتین چاہیں تو ایکسیپٹ کریں یا پھر اگنور یا ریجیکٹ کر دیں۔ (باوثوق زرائع سے اطلاع موسول ہوئی ہے کہ تحریکِ تحفظِ حقوقِ مرداں نے اپنے اگلے مشن کی تیاری بھی کر رکھی ہے۔ شرمین والے محاز کو فتح کرنے کے بعد ناقص العقل خواتین کو یہ باور کرایا جائے گا کہ جنسی ہراسانی دراصل ذہن کا فتور ہے۔ تحریک کے اسپوکسپرسن کا کہنا تھا، 'عورت کے پاس بےشمار اختیارات ہیں اور یہ جنسی ہراسانی جیسے خرافات کے ذریعے ہم مردوں کا بری طرح استحصال یو رہا ہے۔ ایک مرد ایک راہ چلتی عورت کی کمر پر ہاتھ پھیر دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، کیا عورت کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ایکسیپٹ کر کہ اس مرد کا ہاتھ اپنی کمر پر رکھ لے یا اگنور کر کے چلی جائے؟ اور کتنے حقوق چاہئے ہیں ان عورتوں کو؟' آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اسپوکسپرسن آبدیدہ ہو گئے۔

دوسری جانب میڈیا پر بھی ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک صحافی نے محاز سنبھالا۔ ٹھامسن رائٹرز کی کراچی کے حوالے سے رپورٹ کی صداقت کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس پول کے رزلٹ قابلِ یقین نہیں۔ جی بالکل، ایک مرد صحافی نے ہم عورتوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اس شہر میں ہم بالکل محفوظ ہیں، ملک کا نام شرمین کی طرح بین الاقوامی میڈیا میں اچھالا نہ جائے۔

ایونٹ پیجز بنانے والے ونگ نے بھی اپنا فرض بخوبی نبھایا۔ مشن: شرمین کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجو۔ شرمین اور اس کی بہن کی کردارکشی کو قومی فریضہ کے طور پر ادا کیا گیا۔

فیس بک گائڈلائنز بھی ایک عجب نمونہ ہیں۔ فیسبک کون ہوتا ہے ہمیں یہ بتانے والا کہ کس کو فرنڈ ریکوسٹ بھیجنی چاہئیے اور کسے نہیں؟ عنقریب بےچارے مرد حضرات کا سانس لینا بھی جنسی ہراسانی کے زمرے میں شمار ہو گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد بےانتہا ترقی پسند اور ماڈرن ہیں۔ ایک آزاد معاشرے کو تشکیل دینے کے لئے وہ فرنڈ ریکویسٹ بھیجنے کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں۔ دوسری جانب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فیمنسٹ خواتین کس قدر رجعت پسند اور بیکورڈ ہیں کہ اس بنیادی آزادی سے مردوں کو محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ مردوں کا خواب ہے کہ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو علاج کے بعد ڈاکٹر ان کی بیوی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ میری جیسی ناقص العقل خواتین اس قدر بیکورڈ ہیں کہ اس بات کی بھی مخالفت کرتی ہیں۔

شرمین کو بھی چاہئیے کہ رجعتپسندی کو چھوڑ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی بہن کی جگہ اگر بھائی ہوتا تو ڈاکٹر کو فرنڈ ریکویسٹ بھیجنے کا خیال بھی نہ آتا۔

بہرحال ایک بات پر شرمین کو بھی سراہنا بنتا ہے۔ شرمین کے ٹویٹس کے لب و لہجہ میں ایسا بھرم تھا کہ اف! اپنے خاندان کے اثر و رسوخ کا بھرم دکھانا شرمین کے پریولج کی عکاسی کرتا ہے۔ اور پریولج کسی بھی لبرل معاشرے کا حسن ہے۔ کسی بھی فیمنسٹ موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں ان تمام خواتین کو بھلا دینا چاہئے کہ جو اپنی روزمرہ کی زندگی میں استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔ صرف اپنی کلاس کی خواتین کے حقوق کی علمبردار نظر آنا چاہئیے کیونکہ غریب اور جاہل عورتوں کی سپورٹ کی کس کو ضرورت ہے؟

جنسی ہراسانی تمام پاکستانی خواتین کا مسئلہ ہو گا مگر ہم صرف ایلیٹ اور بااثر خواتین کے لئیے آواز اٹھائیں۔ شرمین کے انداز سے یہ پیغام جاتا ہے کہ انہیں انصاف اس لئے ملا کہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جسے دبایا نہیں جا سکتا۔اور یہی پیغام جانا بھی چاہئیے کیونکہ انصاف صرف اشرافیہ کی خواتین کا حق ہے۔ انصاف کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ یہ صرف بااثر مخصوص طبقہ کی عورتوں کا ایکسلیوسو حق ہو۔

harrasement

sharmeen obaid

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div