ظلم پھرظلم ہے

ایک تصویر ہے جو بہت بولتی ھے اس کی آواز مجھے سونے نہیں دیتی۔دل مضطر کی ھر سسکی کے ساتھ آنکھ کی نمی اور دل کا حبس اور بڑھ جاتاھے۔بہت سادہ سی تصویر ھے ایک ننھا سا بچہ ھے جو کبھی کے ساحلوں پہ اوندھے منہ پڑا ملتا ھے آج میں نے اسے بدھ کے آگے سجدہ ریز دیکھا اس کے ننھے سے دل میں اور جینے کی خواہش تھی اس کی ماں نجانے کس بھیڑیے کے خون آشام ہاتھوں زندگی کی بازی ھار گئی۔
میرے بس میں ہوتا تو میں ننھے وجود کو اٹھا لیتی اس پھول کو مرجھانےنہ دیتی۔ نجانے کونسے خوف ننھے وجود کے گرد کنڈلی جمائے ھوئے تھے۔آج میں نے اس ننھے بچے کے وجود پہ دو بھاری پاؤں کا بوجھ دیکھا۔تو مجھ سے سویا نہیں گیا۔میری تخلیق کی قوت جوب دے گئی کچھ لکھنے کا یارا نہیں رہا۔انگلیاں لہو ٹپکانے لگیں ۔ھر لفظ رو نے لگا آج کتنے دن کے بعد اس ادھوری تحریر نے اپنے ھونے کا حساب مانگا ہے ۔یوں تو انسان اگر وہ مسلمان ھوں تو انہیں قطعا یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے ھونے کا حساب مانگیں۔اپنے لہو کا خراج طلب کریں؟
مگر ھر کسی کو یہ حق حاصل ھے کہ مسلمانوں کو ان کے ہونے کی سزا دی جائے۔ان کو زندہ درگور کر دیا جائے۔ان کو جلا دیا جائے ڈبو دیا جائے۔اذیت ناک موت مارا جائےکیوں کہ یہ درندوں کی دنیا ہے۔یہاں ان کی کوئی شناخت نہیں۔ان کی کوئی نسل نہیں۔ان کا کوئی وطن نہیں۔ان کی کوئی سرحد نہیں۔ان کا کوئی وارث نہیں۔
خون کی خوشبوئیں ھوائیں دور تک پھیلا گئیں شہر جنگل بن گئے انسان درندے بن گئے
ان کے دکھ پہ آنکھ بھرآئی تو وارث شاہ بہت یاد آئے۔
آج اکھاں وارث شاہ نوں کدھروں قبراں وچوں بول
ان کی نسل کوئی بھی ھو۔وہ بے نسل ہیں۔کہ مسلمانوں میں اب غیرت و حمیت باقی نہیں رہی۔کوئی ظلم کرتا ھے تو کرتا رہے۔ھماری بلا سے۔ اب کوئی محمد بن قاسم جنم نہیں لیتا۔کوئی داد رسی کو نہیں آ تا۔اخوت محبت اور ھمدردی کے الفاظ اب کتابوں تک محدود ھوگئے۔مسلمان اب وطن کی حدود میں قید ھوگئے۔تازہ خداؤں میں ایک وطن بھی ھے۔کوئی عراقی ایرانی لبنانی کے راگ الاپنے لگا کوئی شامی کوئی مصری کوئی پاکستانی بن گیا مگر کوئی مسلمان نہ رہا نہ ایک دوسرے کادرد رہا۔
اخوت اس کو کہتے ھیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستان کا ھر پیرو جواں بے تاب ھو جائے
اب تو اخوت کی تعریف کسی کو یاد بھی نہیں۔اپنے اپنے مفادات اپنے دکھ ۔ جہاد کافرض بھی مفاد پرستی کے ہاتھوں مٹی میں مل چکا۔ کیوں کوئی اپنے وسائل برباد کر کے کسی مسلمان بھائی کی مدد کو پہنچے۔اب طیب اردگان نے غیرت مسلمانی کا مظاھرہ کیا ھے، خدا کرے کہ یہ کارواں بڑھتا جائے تاکہ پھر کوئی اور بستی صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے۔پھر ننھے فرشتے اپنے ننھے وجود پہ اذیتیں شمار کرتے اس دنیا کو الوداع نہ کہیں۔پھر کسی تصویر کو رونا نہ پڑے کہ وہ روئے اور رلا دے۔ سوشل میڈیا خاموش ھو چکامگر کیا روہینگیا کو جینے کا حق مل گیا۔زندگی کی بنیادی سہولتیں مل گئیں۔ان چاہے وجود اپنی نئی بستیاں بسانے لگےیا ان کے پاؤں کے نیچے زمیں محسوس ہونے لگی ھے؟۔
جب ایسا نہیں ھے توخاموشی کیوں چھا گئی ھے، یہ مجرمانہ غفلت تو نہیں ھے۔یا لاکھوں لوگوں کے بہیمانہ قتل پہ فضائیں سوگ کی کیفیت میں ھیں۔وجہ کچھ بھی ھو اس کا کچھ تو مداوا ھو۔اپنے دیس میں اجنبی لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق توملنے چاہئیں۔کوئی قوانین تو بننے چاہئیں تا کہ ظلمت کا بازار پھر سرگرم نہ ھو، پھر کوئی تصویر میں مقید ھو کے جینے کا حق نہ مانگے وہ بھی ان سے جو عاریتا بھی نہ دیتے ھوں۔کہتے ھیں لہو اپنا حساب ضرور طلب کرتا ھے چاہے وہ کتنا ھی ارزاں کیوں نہ ہو۔ چلیں آئیے ھاتھ پہ ھاتھ رکھ کے بیٹھتے ھیں اور اس وقت کا انتظار کرتے ھیں جب خون اپنا حساب لے گا۔جب ہاتھ پاؤں بول اٹھیں گے۔جب یوم محشر ہو گا۔آئیے تب تک ھاتھ پہ ھاتھ دھرے منتظر فردا رہتے ھیں۔شاید کوئی محمد بن قاسم ادھر آ نکلے شاید کوئی طارق بن زیاد اپنی کشتیاں پھر جلا ڈالے۔ شاید کوئی دادرسی کو آنکلے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ھے تو مٹ جاتا ھے۔
ظلم پھر ظلم ہے ‘بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ‘ٹپکے گا تو جم جائے گا ۔ خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے فرقِ انصاف پہ یاپائے سلاسل پہ جمے تیغِ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں خون خود دیتاہے جلادوں کے مسکن کا سراغ سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کا نقاب لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی بات ہی کیا‘ ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم بس ظلم ہے ‘آغاز سے انجام تلک خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ مٹے ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بجھے ایسے نعرے کے دباؤ تو دبائے نہ دبے