پیوستہ رہ شجر سے
مشرقی دلہنوں کی جب مایوں کی رسم ادا کی جاتی ہے تو رواج ہے کہ ہرا بھرا پان کا پتا ہاتھ پہ رکھ دیا جاتا ہے اور بڑی بوڑھیاں دلہن کوہمیشہ پھلا پھولا رہنے کی دعائیں دیتی ہیں ۔ رسماً یہ پان کا ہرا بھرا پتا خوشگوار احساس دلانے کے لئے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ ماحول کو سب سے زیادہ تازگی اور خوشگوار بنانے میں پھول ،پودے اور ہرے بھرے درخت ہی سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ پھول پودوں کا احساس انسان کواندر سے تروتازہ کردیتا ہے۔ پارک یا ہریالی والی جگہ جاتے ہی موڈ تبدیل ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقات جات اپنے ہرے بھرے سبزے سے بھرے پڑے ہیں اور اس وجہ سے ہی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔
بڑے بزرگ کہتےہیں کہ اگرآپ درخت نہیں لگا سکتے یا مناسب جگہ یا انتظام نہیں تو گھر میں کسی گملے میں ایک پودا ہی لگا لیں اور اس کا اسی طرح خیال رکھیں جیسے کہ گھر کے کسی فرد کا، مطلب اس کو وقت پر پانی دینا، سورج کی مناسب روشنی فراہم کرنا اور اس کی کٹائی چھٹائی کا خیال رکھنا ۔پودے جاندار ہوتے ہیں اور یقیناً جب آپ اپنے گھر میں ایک پودے کو اپنی روز مرہ کی مصروفیت میں سے ٹائم دیں گے تو یقین کریں آپ ایک اچھی تبدیلی محسوس کریں گے۔آپ کے لگائے ہوئے ایک پیڑ کا پھل آنے والی سات نسلیں کھائیں گی۔شدید گرمی میں کسی بوڑھے درخت کی چھاؤں تلے آتے ہی گرمی کے ستائے شخص کی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے اور اس کا ثواب بھی براہِ راست اس شخص کو ملتا ہے جس نے یہ درخت لگایا ہوتا ہے۔

یہ بات باربار بتائی جا رہی ہے کہ گلوبل وارمنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دنیا بھر کے موسم میں بڑی تبدیلی آچکی ہے۔اس کی اہم وجہ درختوں کا کاٹ دینا اور نئے درخت نہ اگانا بھی ہے۔گزشتہ ہفتےکراچی میں آنےوالی ہیٹ ویو سے لوگ اس لئے ہی زیادہ متاثر ہوئے ہیں کہ یہاں درختوں کی کمی ہے۔جب کہ اتنی یہ گرمی پاکستان کے دووسرے شہروں میں بھی پڑ جاتی ہے لیکن ہریالی ہونے کی وجہ سے لوگ لو لگنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہیٹ ویوز سے ممکنہ متاثر افراد کے لئے کیمپ تو لگا دئے جاتے ہیں لیکن لوگوں میں یہ شعور یا آگاہی نہیں دی جاتی کہ درختوں کی حفاظت کیجئے اور مزید درخت لگائیں۔
فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں یا گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ پھیلاتا ہے۔ جب کہ درخت یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر لیتے ہیں، فضا میں تازگی پھیلاتے ہیں ۔ درخت آلودگی کو کم کرتے ہیں ۔ جتنے زیادہ درخت ہوں گے ماحول اتنا ہی صاف ستھرا اور تازگی بھراہوگا۔اس کےعلاوہ درخت بارش کا باعث بنتے ہیں،گرمی کم کرتے ہیں۔ سیلابی صورتحال میں جنگلات زمین کے کٹاؤ کو روکنےمیں معاون ہوتےہیں۔اس کےعلاوہ درختوں کی لکڑی فرنیچر بنانےکےکام آتی ہے جس سےاس صنعت کو ترقی ملتی ہے۔
گھر میں اگر لان نہیں تو ایک کیاری ہی بنا لیں جس میں مختلف بیلیں یا چھوٹے چھوٹے پودے لگائیں۔ اس کے علاوہ آپ سبزیاں پھل اگا سکتے ہیں جیسے ہرا دھنیا، لیموں ، ٹماٹر ، ہری مرچ وغیرہ، یہ سب آسانی سے لگائی جا سکتی ہیں۔اس سے نا صرف تازہ سبزی حاصل ہوگی بلکہ بچت بھی ہوگی کیونکہ اب ذرا سی سبزی بھی خریدنا آسان نہیں ، حالیہ ٹماٹر کے بحران کی مثال سب کے سامنے ہے۔
حکومتی سطح پرکئی دفعہ شجرکاری مہم شروع کی جاتی ہے۔پودےتقسیم کئےجاتےہیں لیکن اس ایکٹیویٹی کو جاری رکھنے کے لئے مزید دلچسپی یا نگرانی نہیں کی جاتی۔ اگر تعلیمی اداروں میں بچوں کو پودوں سے محبت کا درس دیا جائےاوران کوپھول پودے اگانے کی ترغیب دی جائے تو یقیناً پاکستان کاکونا کونا خوبصورت اور دلکش ہو جائے گا۔اگر ہر شخص اپنے اپنے حصے کا ایک پودا لگا دے گا تو نا صرف ماحول میں بڑی تبدیلی واقع ہوگی بلکہ اس سے وابستہ صنعتیں بھی ترقی کریں گی۔امریکہ،کینیڈااوریورپی ممالک میں لوگ شوق سے باغبانی کرتے ہیں اورعموماً گھرکےپچھلےحصےمیں ایک چھوٹالان ضرور بناتے ہیں جس میں چھوٹے موٹے پھل اور سبزیاں لگائی جاتی ہیں۔اگر آپ اپنے گھر میں لان نہیں بنا سکتے تو کم از کم گملوں میں مختلف پودے لا کررکھیں اور تبدیلی دیکھیں۔