نااہل وزیراعظم یا جِیرا بلیڈ؟

تحریر: نوید نسیم

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں 3 اکتوبر کا دن بھی ویسے ہی یاد رکھا جائیگا۔ جیسے 2008 کا 8 اکتوبر کا دن۔ جب 7.6  شدت کے زلزلے نے پاکستان کے شمالی علاجات کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ منگل کے دن پاکستان مسلم لیگ نواز نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اگلے چارسالوں کیلئے بِلا مقابلہ منتخب کرلیا۔ جنھیں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے کی کمپنی کا ملازم ہونے پر نااہل قرار دیا تھا۔ اصولی طور پر تو جو شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہوسکتا اسے کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں ہونا چاہیئے جس کے اراکین پارلیمنٹ میں موجود ہوں یا اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہوں لیکن چونکہ یہ پاکستان ہے۔ جہاں ایسی نام نہاد جمہوریت ہے۔ جس میں جس سیاسی جماعت کے پاس ایک بار اکثریت آجائے وہ جماعت اگلے پانچ سالوں تک ووٹرز کی طرف سے ملنے والی اکثریت کی بنیاد پر کسی فرد یا ذاتی مقاصد کیلئے آئین میں ترامیم کرسکتی ہے۔

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ نواز نے مطلوبہ آئینی ترمیم جتنی ہوشیاری اور پھرتی سے منظور کروانے کے بعد صدر مملکت سے بھی منظور کروالی۔ اتنی پھرتی اور ہوشیاری کبھی عوامی مفادات کیلئے کی جانیوالی کسی آئینی ترمیم کے لئے نواز لیگ کی چار سالہ حکومت میں نظر نہیں آئی۔

ایک طرف نواز لیگ سابق وزیراعظم کی نااہلی کے بعد سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اور دوسری طرف نواز شریف کی نااہلی کے بعد سابق وزیراعظم کا بحیثیت صدر مسلم لیگ نواز چناؤ یہ پیغام دیتا ہے کہ سپریم کورٹ اور احتساب عدالت جومرضی فیصلہ دیدیں۔ پاناما لیکس تو کیا، ہر بندے کی زبان پر "پورا ٹبر کرپٹ" کے نعرے ہوں۔ جب تک نواز لیگ کی حکومت ہے۔ نواز لیگ اپنے قائد کیلئے کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر نیب میں دائر ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف پر فردِ جرم 2 اکتوبر بروز سوموار عائد ہونا تھی جس کیلئے سابق وزیراعظم سرطان سے لڑتی اہلیہ اور لاہور کے حلقہ ای اے 120 سے منتخب ہونیوالی کلثوم نواز کو چھوڑ کر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ مگر وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کی غیر حاضری کی وجہ سے سابق وزیراعظم پر فردِ جرم عائد ناکی جاسکی۔ جس کیلئے احتساب عدالت کی طرف سے 9 اکتوبر کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔ ویسے تو سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ لیکن اگر احتساب عدالت 2 اکتوبر کو بھی نااہل وزیراعظم پر فردِجرم عائد کردیتی اور اگلے روز نااہل وزیراعظم احتساب عدالت سے بھی باقاعدہ ملزم قرار دے دئیے جاتے تو عوام کی طرف سے منتخب کردہ اراکین اسمبلی اور دیگر اراکین پاکستان مسلم لیگ نواز ایک نہیں بلکہ دو بار سزا یافتہ نااہل وزیراعظم کو صدر مسلم لیگ نواز منتخب کرلیتے۔

منتخب ہونے کے بعد سابق نااہل وزیراعظم نے کنونشن سنٹر میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں باربارسیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کارکن اورعوام انہیں دوبارہ سیاست میں داخل کرتے رہے۔ سابق نااہل وزیراعظم کی جرات اور حوصلے کو سلام ہے۔ جو سزایافتہ ہونے کے بعد نام نہاد جمہوریت میں منتخب کردہ اراکین اسمبلی کی طرف سے منتخب ہونے اور ان کی سپورٹ کو عوامی سپورٹ ہونے کے دعوے کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم یہ جانتے ہیں کہ عوام تو نواز لیگ کو 2013 میں منتخب کرکے 5 سالوں کیلئے پھنس چکے ہیں۔ اب 5 سالوں تک عوام کے منتخب کردہ اراکین اسمبلی نواز شریف کو جماعت کا صدر منتخب کریں یا “جیرے بلیڈ” کو۔ عوام کو 4 سال کی سزا مل چکی ہے اور چند ماہ کی سزا باقی رہ گئی ہے۔ تب تک اراکین اسمبلی اٹھالیں فائدہ اس جمہوریت کا۔

سلام ہے ایسی عوام کو جو ایسے اراکین اسمبلی کو چنتے ہیں اور چومنے کے قابل ہیں وہ اراکین اسمبلی جو ایسے سزا یافتہ نااہل کو دوبارہ سے سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بلا مقابلہ منتخب کرلیتے ہیں۔ جس پر 9 اکتوبر کو احتساب عدالت کی طرف سے فردِ جرم عائد کردی جائیگی۔

Panama leaks

hussain nawaz

hasan nawaz

NA 120

NAB references

Disqualified PM

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div