خاموش قاتل
۔۔۔۔۔** تحریر : شیربانو معیز علی **۔۔۔۔۔
نجی اسپتال کے سی سی یو وارڈ میں داخل ہوئی تو بیڈ نمبر 6 پر بھارت سے پاکستان آئی میری کزن کا بے جان جسم مصنوعی سانس کی مشین سے زندہ تھا، ڈاکٹر سے مریض کی حالت دریافت کی تو معلوم ہوا ہارٹ اٹیک تھا، سی پی آر سے دل کی دھڑکنیں واپس آگئیں، اینجو پلاسٹی کی گئی ہے، مریض ہوش میں نہیں لہٰذا بائی پاس ممکن نہیں، دل کی تینوں شریانیں بند ہیں، یعنیٰ 90 فیصد دل کام ہی نہیں کررہا تاہم بروقت امداد ملنے سے مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے، ہارٹ اٹیک، ایسا کیسے ممکن ہے؟، سوال میری زباں پر آکر رک گیا، گشتہ صبح تک سب معمول کے مطابق تھا، دل کی تکلیف تو دور انگلی تک میں بھی درد نہ تھا، 48 سال کی عمر میں وہ جوانوں سے بھی زیادہ چاق و چوبند اور چست تھیں، جس نے کبھی دل میں درد کی شکایت تک نہ کی ہو اس کا دل اچانک بغیر کسی وارننگ کے کام کرنا بند کردے، یہ کیسے ممکن ہے؟، سوچوں میں گم سی سی یو وارڈ سے باہر نکلی تو کزن کے بھتیجے نے صبح پیش آنیوالے واقعے کی تفصیل بتائی، بولا پھوپھی رات دیر تک باتیں کرتی رہیں، صبح نیند سے بیدار ہوئیں اور کہا کہ سانس لینا دشوار ہے۔ ڈاکٹر بھتیجے نے دیر کئے بغیر گاڑی دوڑائی اور بجائے کسی بڑے اسپتال جانے کے قریبی صحت کے مرکز لے پہنچا، اسپتال پہنچتے ہوئے وہ بے ہوش تو ہوچکی تھیں لیکن فوراٍ آکسیجن بحال کی گئیں، دھڑکنیں بہتر ہوتے ہی مریض کو بڑے اسپتال شفٹ کیا گیا، جہاں سی سی یو وارڈ میں سی پی آر اور وینٹی لیٹر کی مدد لی گئی، ڈاکٹر کے مطابق قریبی اسپتال میں بروقت امداد ملنے سے مریض کو زیادہ نقصان سے بچالیا گیا ورنہ جان جاسکتی تھی۔

ڈاکٹر کے الفاظ گویا مجھے 6 سال پہلے ماضی میں لے گئے، میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اور زخم ایک بار پھر ہرا ہوگیا، بڑے نجی اسپتال وہی سی سی یو وارڈ لیکن صورتحال مختلف، 16 نومبر 2011ء بدھ کی شب 10 بجے تک والد صاحب سے باتیں کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں چلی گئی، ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اچانک امی کی چیخ و پکار سے آنکھ کھلی، جاکر دیکھا تو ابا بے چین ہورہے تھے، سانس لینے میں تکلیف تھی، میرے دونوں ہاتھوں کو انہوں نے مضبوطی سے تھاما اور بولے میں نہیں بچوں گا، میں نے خود کو سنبھالا اور انہیں تسلی دی کہ ابا اطمینان رکھیں، ہاتھ چھڑا کر فوراً ایمبولینس بلائی اور جس بڑے اسپتال میں ابا کا علاج ہوتا تھا وہیں کی راہ لی، ابا بے ہوش ہوچکے تھے، ایمبولینس کے مانیٹر پر دل کی دھڑکن 37 دکھائی دے رہی تھی، 20 منٹ میں اسپتال پہنچ گئے، ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر نے نبض دیکھ کر کہا، ہی از نو مور، یہ کہہ کر ڈاکٹر ابا کے بستر کے قریب گیا اور ٹیم کو ایک بار پھر سی پی آر کی ہدایت کی، دھڑکنیں واپس آگئیں، وینٹی لیٹر کے ذریعے سانسیں دی گئیں، ایمرجنسی سے ابا کو سی سی یو وارڈ میں شفٹ کیا گیا۔

میرے سامنے اب ایک بے جان جسم تھا، ٹھنڈا گرم بے جان جسم، ڈاکٹر کے مطابق ابا کو ایک ہی دن میں 2 ہارٹ اٹیک آچکے تھے، پہلا مائنر تھا جبکہ دوسرا جان لیوا ثابت ہوا، دل بند ہونے سے خون دماغ تک نہ پہنچ سکا، اسپتال لانے میں زیادہ وقت لگ گیا، جس ک باعث آکسیجن نہ ملنے سے دماغ مر چکا ہے، کوما میں ہے، نہیں کہا جاسکتا کتنے روز اسی حالت میں رہے۔ اس سے پہلے کے ڈاکٹر کچھ اور کہتا، کئی سوالات میرا احتساب کررہے تھے۔
دو بار دل کا دورہ پڑا لیکن علامات کیوں نہ پہچان سکے، سانس اکھڑنے کی صورت میں فوری امداد کیا ہوسکتی تھی؟، ڈاکٹر کی تفصیلات اور گونجتی تلخ حقیقت کے سامنے میرے تمام سوالات سسکیوں میں دب چکے تھے، چار دن کوما میں رہنے کے بعد 20 نومبر کو ابا انتقال کرگئے، ابا کے جانے کا غم اپنی جگہ لیکن غفلت اور کوتاہی نے غم کو صدمے میں تبدیل کردیا۔

(موت برحق ہے، لیکن بروقت امداد سے جان بچانے کی کوشش کی جاسکتی تھی)، یہ وہ جملہ ہے جو 6 سال بعد بھی ضمیر کو چین نہیں لینے دیتا، بدھ کی دوپہر جب ابا نے سانس کی تکلیف کی شکایت کی تھی اسے تھکن کا نام دے کر نظر انداز نہ کیا جاتا تو مائنر ہارٹ اٹیک گرفت میں آسکتا تھا، رات جب سانس اکھڑنے لگی تو بڑے اسپتال جانے کے بجائے، قریبی طبی مرکز ایک بہتر آپشن ثابت ہوسکتا تھا، دل کا باقاعدگی سے معائنہ ہارٹ اٹیک کا خطرہ ٹال سکتا تھا یہ اور ایسے کئی اگر مگر سننے میں بے معنی لیکن امراض قلب جیسے خاموش قاتل کے خاتمے کیلئے انہتائی ضروری ہے۔
معمولی غلفت پیاروں کی جان بچانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے، احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری فرسٹ ایڈ کی بنیادی معلومات رکھنا ہے، تاکہ ہنگامی صورتحال میں زندگی بچانے کیلئے مناسب اور کارآمد طریقہ علاج اپنایا جاسکے۔