روہنگیا بحران پربین الاقوامی معائنے کا کوئی ڈرنہیں؛آنگ سان سوچی
ینگون: میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ انھیں اپنی حکومت کے روہنگیا بحران سے نمٹنے پر بین الاقوامی معائنے کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ مسلمانوں کیخلاف پرتشدد کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق منگل کو ملک کے شمالی رخائن صوبے میں جاری بحران پر اپنے پہلے قومی خطاب میں آنگسان سوچی نے کہا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے صوبے سے نقل مکانی نہیں کی ہے اور پرتشدد کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ملک میں جاری بحران پر ان کے ردعمل پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ رخائن صوبے سے روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کے لیے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اگست کے مہینے میں مبینہ طور پر پولیس چوکیوں پر مسلح حملے کے بعد شروع ہوئی۔
میانمارحکومت نے ان حملوں کا الزام روہنگیا عسکریت پسندوں پرعائد کیا ہے۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی کریک ڈاؤن شروع ہوا جسے اقوام متحدہ نے ’’نسل کشی‘‘ سے تعبیر کیا۔
آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ یہ خطاب اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ وہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک نہیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری یہ جان لے کہ ان کی حکومت حالات سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی تمام پامالیوں کی مذمت کی اور کہا کہ جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہے اس کو سزا دی جائے گی۔
سوچی کے مطابق رخائن میں امن و امان بحال کرنے کے لیے حکومت ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا اور اس کے متعلق ہم نقل مکانی کرنے والوں سے گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ بحران کو حل کرنے اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کے لیے ایک مرکزی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو زیرالتواءمسائل کو حل کرنے کے لیے مجوزہ کمیشن کی قیادت کے لیے مدعو کیا ہے۔
سوچی نے واضح کیا کہ جو میانمار واپس آنا چاہتے ہیں ان کے لیے ہم پناہ گزین شناختی عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم مذہب اور نسل کے نام پر میانمار کو منقسم دیکھنا نہیں چاہتے۔
واضح رہے کہ خیال رہے کہ 4 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان رخائن صوبے سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش جا چکے ہیں۔ سماء/ خبرایجنسی