میرے دل میرے مسافر
****تحریر: از سید علیم الدین****
یہ سفرشاید زندہ جاوید اسی لئے ہے کہ پہلا اور جس تناظر لکھا گیا ہے کا اصل سفرجو فلسطین کے مظلوموں سے شروع ہوا تھا ہنوز راہ میں ہےبلکہ بڑھ گیا جبھی تو اسکا پھیلاؤ دیگر بلاد عرب کے بے آسرا مسافروں سے منزل کی مسافت کا کرب پوچھ رہاہے ،نئے قافلے اس سفر کے شریک کارٹھیرے اور سفربھی کیسا سفر پابجولاں بھی ہے دل فگاربھی اور ستم رسیدہ لوگوں کے حق میں خوں بہ داماں بھی۔ یہی سفر 1979 سے افغانوں کے نصیب میں سرخ انقلاب کے نعرے سے شروع ہوا تو جنگ ختم بھی ہوئی روس نامراد لوٹ بھی گیا لیکن افغانوں کی آزمائش ختم نہ ہوسکی11/9 کے بعد 48 ملکی اتحاد نے ایسی خوفناک بمباری کی کہ انسانی اجسام تو ایک طرف رہے پہاڑوں تک کہ چیتھڑے اڑا دئیے گئے اسکے بعد سے دہشت گردی کے عفریت نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہےجب سے افغانستان میں حکومتی عملداری کے عنقا ہونے کا چلن ہوا ہے اس نے کم وبیش اپنے گردوپیش کے ممالک کو بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس سے متاثرہ ملکوں میں وطن عزیز سرفہرست ہےاور کسی نہ کسی انسانی المیہ خود کش دھماکے ہمارے سپاہیوں کے سربریدہ لاشے ہوں یا آرمی پبلک اسکول کی وہ کلیاں جو بن کھلے مرجھا گئیں ہم یہاں اپنی حکومتی پالیسیوں کا حساب نہیں کر رہے جو یقینی طور پہ غلط بھی ہوسکتی ہیں لیکن عوامی سطح پر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس سفر غمناک کے راہی ٹھیرے۔
ایک سفر ایسا بھی ہے جس کے ہم شریک سفر بھی ہیں اور انشا اللہ شریک منزل بھی ہونگے یہاں مراد وادی جنت نظیر کشمیر ہے جنکی قربانیوں اور جہد مسلسل کے ہم شاہد بھی ہیں مشہود بھی اور احساسات جذبات اوراخلاقی طور پہ زمام کار بھی ہیں ،موجودہ لہر جو کشمیریوں کے عزم مصمم کی عکاس ہے انشا اللہ ظلم کی تاریک رات کے 70 سالہ سفر کو آزادی کی سحر سے ہمکنار کرے گی۔
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
برما کا سفراس سفر کا سب سے افسوسناک پہلو بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں ظلم کی انتہا ہے جنکا ماننا ہے کہ وہ تو" پیروں میں چپل تک اس لئے نہیں پہنتے کہ کوئی کیڑا بھی انکے پیروں تلےکچل کے ہلاک نہ ہوجائے"،لیکن جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے اس سلوک بابت جو انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کیساتھ روا رکھا ہوا ہے اس سے تو آشکار ہوتا ہے گویا وہ گوتم بدھ نہیں قہر کے دیوتا کے پرستار ہوں اور دوسری جانب وہ مظلوم روہنگیا ہیں جن کو اقوام متحدہ کی رپورٹ کائنات کے مظلوم ترین لوگ قرار دیتی ہے جو کسی ملک کے شہری تک نہیں یعنی شناخت اور کاغذات کے تناظر میں یہ لوگ وجود ہی نہیں رکھتے جبکہ امر واقعہ ہے کہ ۱۹۸۲تک یہ باقاعدہ برما کے شہری تھے لیکن برما کے حکمرانوں نے ان کی شہریت تک منسوخ کردی ہے۔ اسی وجہ سے ان میں اکثر لوگ بنگلہ دیش اور برما کے ساحلی علاقوں کی دلدل زدہ زمین میں جھونپڑیاں بنا کر رہنے کے لئے مجبور ہیں ،برمی فوج اوربودھ دہشت گرد اکثر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں گاؤں کے گاؤں جلا کر خاکستر کردیتے ہیں اور فریاد کیلئے ان مظلوموں کے پاس سوائے آسمان کے اور کوئی ذریعہ نہیں کیونکہ زمین بےرحم ہے اور آسمان بہت دور تو ان کے نالے بھی صدا بہ صحرا ہی کی طرح ناکام و نامراد رہتے ہیں۔
