جیت گئی کرکٹ؛ہار گئی دہشت گردی
تحریر: افضال فاروقی
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ لوٹ آئی۔ ورلڈ الیون کے دورے پاکستان کے بعد ملک میں عالمی مقابلوں کے دروازے بظاہر کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ سال 2015 میں زمبابوے کی ٹیم کی میزبانی کی تھی اور رواں برس مارچ میں پی ایس ایل کا فائنل بھی لاہور میں ہوا تاہم ورلڈ الیون کے دورے نے پاکستان کی کرکٹ کو دوام بخشا ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت پر ہوا جب پاکستان کی ٹیم تین ماہ قبل انگلینڈ میں چیمپیئنز ٹرافی میں فتح سے ہمکنار ہوئی۔ اس فتح کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی پکار بڑھتی چلی گئی۔ کرکٹ بورڈ نے تمام تر کوششوں سے اس دورے کو ممکن کر دکھایا۔ اس دورے کےلیے اگرچہ کریڈٹ موجودہ بورڈ کو جاتا ہے تاہم شہریار خان نے ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کی کوششوں میں اپنے دور میں واضح اقدامات کئے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے بھی دورے کے کامیاب انعقاد میں اپنا واضع حصہ ڈالا۔ غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان میں اپنے قیام کو یادگار قرار دیا اور دوبارہ آنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اس دورے کےلیے غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے معاوضے کےعوض قائل کیا تھا۔ مگر کرکٹ کی پاکستان میں واپسی سے کوئی انکار نہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ وہ اس دورے کے نتائج کا بھرپور استعمال کرے اور دیگر ممالک کو اپنی ٹیمیں پاکستان بھیجنے پر قائل کرے۔ اگلے ماہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ایک ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میں ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس کے علاوہ نومبر میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی تین ٹی ٹوینٹی میچز کی سیریز کے لیے پاکستان آسکتی ہے۔ یہ چاروں میچز بھی ہائی پروفائل ہونگے۔ ان میچز سے آمدنی کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا اگرچہ قبل ازوقت ہے تاہم ان پر خرچہ کروڑوں میں آنے کے امکانات ہیں۔ کرکٹ انتظامیہ ابھی سے اپنے مارکیٹنگ کے شعبہ کو مزید فعال کرکے ان میچز کو منافع بخش بناسکتی ہے۔
رواں ماہ گرم موسم کی وجہ سے تماشائیوں کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ میچ کے ٹکٹس نسبتا مہنگےہونے کی وجہ سے بھی کرکٹ کے مداحوں نے خفگی کا اظہار کیا۔ چئیرمین بورڈ نجم سیٹھی نےغلطی تسلیم کی اور آئندہ میچز کے ٹکٹ کم قیمت رکھنے کا وعدہ کیا۔ اکتوبر کے آخر اور نومبر میں موسم میں بہتری کی وجہ سے زیادہ تعداد میں تماشائیوں کی آمد متوقع ہوسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انتظامات ابھی سے کرنا ہونگے۔
اس کے علاوہ لاہور کے ساتھ دیگر شہروں میں بھی کرکٹ میچز کروانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ کراچی بھی کرکٹ کا گڑھ رہا ہے۔ کراچی میں آخری بین الاقوامی میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان فروری 2009 میں ہوا تھا۔ اس ٹیسٹ میچ میں یونس خان نے ٹرپل سنچری اسکور کی تھی۔ اس بار شہریوں کو امید تھی کہ وہ غیرملکی اسٹارز کو نیشنل اسٹیڈیم میں پرفارم کرتا دیکھ سکیں گے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ کرکٹ بورڈ نے نیشنل اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا جو کام رواں ماہ شروع کیا اس میں مزید تین سے چار ماہ لگ سکتے ہیں۔ بورڈ کی کوشش ہےکہ پی ایس ایل تھری کے کچھ میچز کراچی میں بھی کروائے جائیں۔ مگر ابھی اس حوالے سے کوئی بات واضح نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردی سے شدید متاثر ہوا۔ جہاں قیمتی جانیں گئی وہیں اربوں روپے کا نقصان بھی پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ کھیلوں سے محبت کرنے والی سرزمین کے شہریوں کے لیے بین الاقوامی کرکٹ سے دوری تکلیف دہ لمحہ رہی۔ پاکستان نے کئی سیریز بیرون ملک ہوم سیریز کےطور پر کھیلیں۔ پاکستان میں کرکٹ نہ ہونے کے باوجود اس کھیل میں پاکستان ترقی کرتا رہا۔ اگرچہ کئی اسٹارز یہ خواہش لئے ریٹائر ہوگئے کہ وہ آخری بار اپنے ملک میں ایکشن میں نظر آسکیں مگر کرکٹ نے لوٹنے میں دیر لگا دی۔ اب جبکہ پاکستان میں کرکٹ واپس آرہی ہے، نوجوانوں میں اس حوالے سے جوش بڑھ رہا ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے بھی پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ آئی سی سی نے کہہ دیا ہےکہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان میں آئی سی سی ایونٹ کروانے کا امکان ہے۔ تاہم یہ امکان فوری طور پرممکن نہیں کیوںکہ آئی سی سی کے ایونٹس پہلے سے ہی طے ہوتے ہیں۔ اگر حالات بہتر ہوتے چلے گئے تو 2020 تک آئی سی سی کا کوئی ایونٹ پاکستان میں ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ کہ پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی بھی ضروری ہے۔ عالمی ٹیموں کے مصروف شیڈول کے باعث ٹیسٹ کرکٹ بھی تقریبا ایک برس بعد ہی ممکن ہوسکے گی۔
شائقین کرکٹ کو امید ہےکہ کھیل سے محبت کاصلہ انھیں ضرورملے گا۔ پاکستان میں کرکٹ کے میدان دوبارہ آباد ہونگے۔ پاکستان کے سپراسٹارزاپنے مداحوں کے سامنے پھرسے ایکشن میں نظرآئیں گے۔ کچھ کردکھانےکاعزم لئے پاکستانی کھلاڑیوں نے غیرملکی کھلاڑیوں کی مددسے پاکستان میں کرکٹ کو فتح سے ہمکنارکرکے دہشت گردی کوشکست دے دی ہے۔