"بےنظیر بھٹو کا عدالتی قتل"
تحریر: عمیر سولنگی
ہمارا عدالتی نظام بےحد کمزور ہے۔ ناجانے کتنے بےگناہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں جن کے کیسز کی سماعت تک نہیں ہوتی۔ یہاں سچ اور جھوٹ کی جنگ میں اکثر جھوٹ جیت جاتا ہے۔ یہاں انصاف کی تلاش میں اکثر بےگناہ انسان قانونی جنگ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلا جاتا ہے، ایسے بھی فیصلے دیکھنے کو ملے ہیں جب انصاف کے حصول کے طلبگار کو انصاف ملتا ہے تو وہ منوں مٹی تلے ہوتا ہے۔ ظلم کی مختلف اشکال ہیں اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بروقت انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی ظلم کی تعریف میں آتا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے جان پر کھیل کر دہشتگردوں کو گرفتار کرتے ہیں اور وہ دہشتگرد عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔ جس ملک میں سابق وزرائے اعظم کو انصاف نا مل سکے وہاں ایک عام انسان کس سے انصاف کا تقاضہ کرے؟ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو آج تک انصاف نہیں مل سکا، پاکستان کے پہلے جمہوری منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور وہ انصاف حاصل نا کرسکے اور اب میرے نزدیک پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بےنظیر بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ہے۔
اکتیس اگست 2017 کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بےنظیر بھٹو قتل کیس میں گرفتار پانچوں سہولت کاروں کو رہا کردیا۔ ایک صحافی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ حیران کن دعوی کیا کہ پانچوں ملزم بےنظیر بھٹو کی شہادت سے ایک ماہ قبل خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے لئے تھے، 2 لوگوں کو ڈیرہ اسماعیل خان، ایک کو مانسہرہ اور باقی لوگوں کو مختلف علاقوں سے تحویل میں لیا گیا تھا اور انہی کو مرکزی قاتل بنا کر پیش کیا گیا۔ ان کے مطابق باقاعدہ طور پر تحقیقات کو گمراہ کرنے کیلئے ایسے لوگ بیچ میں ڈالے گئے جن کا قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بےنظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ لگ بھگ 9 سال بعد سنایا گیا مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فیصلہ عجلت میں سنایا گیا ہو۔
"عدلیہ جس قاتل کی کھوج میں ہے،
وہ قاتل بیرون ملک موج میں ہے." #عمیرسولنگی
بےنظیر بھٹو قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف ان دنوں بیرون ملک ہیں، انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے عدالتوں پر دباؤ ڈالا اور مجھے پاکستان سے باہر جانے میں مدد کی۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کا اس بیان کی تردید نا کرنا بھی سوالیہ نشان ہے۔
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہید بےنظیر بھٹو قتل کیس کے مرکزی ملزم کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے گارڈ آف آنر کیوں پیش کیا اور مشرف کو باآسانی فرار ہونے کیوں دیا گیا؟ دوسرا اہم سوال کہ عدالتی حکم کے باوجود ایک ماڈل ایان علی کا نام ای سی ایل سے نا نکالنے والی نواز حکومت نے آئین توڑنے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت برطرف کرنے والے ملٹری ڈکٹیٹر کا نام ای سی ایل سے کیوں خارج کیا؟31 اگست کے عدالتی فیصلے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ بےنظیر بھٹو کا ایک مرتبہ پھر قتل ہوا ہے اور اس مرتبہ ان کا عدالتی قتل ہوا ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سموسے، پکوڑے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ازخود نوٹس تو لیا مگر ملک کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو قتل کیس میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، وہیں پیپلزپارٹی بھی غیر سنجیدہ نظر آئی، حتی کہ جب عدالت نے پیپلزپارٹی کی شہید چیئرپرسن بےنظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا تو اس وقت پیپلزپارٹی کا کوئی رہنما عدالت میں موجود نہیں تھا۔
آج ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کیا شہید بےنظیر بھٹو کو انصاف ملے گا؟