امریکا کی نئی افغان پالیسی

U.S. Gen. John Nicholson, top U.S. commander in Afghanistan, left, talks with Col. Khanullah Shuja, commander of the national mission brigade of the Afghan special operations force, and U.S. Gen. Joseph Votel, head of U.S. Central Command, at Camp Morehead in Afghanistan on Sunday, Aug. 20, 2017. The three officers attended the launch of the Afghan Army’s new special operations corps. (AP Photo/Lolita Baldor)
U.S. Gen. John Nicholson, top U.S. commander in Afghanistan, left, talks with Col. Khanullah Shuja, commander of the national mission brigade of the Afghan special operations force, and U.S. Gen. Joseph Votel, head of U.S. Central Command, at Camp Morehead in Afghanistan on Sunday, Aug. 20, 2017. The three officers attended the launch of the Afghan Army’s new special operations corps. (AP Photo/Lolita Baldor)

۔۔۔۔۔**  تحریر : سید فرخ عباس  **۔۔۔۔۔

امریکا کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف شروع کی جانیوالی جنگ کو 16 سال ہونے کو آئے ہیں، ان 16 سالوں میں شاید ہی کوئی ایک دن ایسا گزرا ہو جب دنیا کے کسی ملک میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہ ہوا ہو۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کچھ ممالک اور لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ نائن الیون سے پہلے دنیا میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں تھا، یہ بات حقائق کے منافی ہے، پاکستان 80ء کی دہائی سے ہی منظم دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا کہ جب پاکستان سے افغانستان جا کے لڑنے والے جہادی واپس پاکستان آنے لگے تو انہوں نے پاکستان کے اندر ہی مختلف حیلے بہانوں سے پاکستانیوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کردیا، گو کہ تب اس کو فرقہ وارانہ جنگ کا نام دیا جاتا تھا پھر نائن الیون کے بعد ان تنظیموں پر پابندی عائد کرنا پڑی تو ان کی کارروائیوں کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا، اسی اصول کے تحت نائن الیون سے پہلے ہونے والی دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے 22 اگست کو افغان پالیسی پر کی جانے والی تقریر میں پاکستان سے ایک بار پھر '' ڈومور''  کا مطالبہ دہرایا گیا، گزشتہ 16 سالوں میں شاید ہی کوئی دن گزرا ہو جب امریکا کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آیا ہو، 80ء کی دہائی میں امریکی سرپرستی میں لڑا جانے والا جہاد امریکی زمین پر پہلا حملہ ہوتے ہی دہشت گردی میں تبدیل ہوگیا، اگر کچھ تبدیل نہیں ہوا تو وہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی  پالیسیز ہیں۔

پہلے افغانستان میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر جنگ کے شعلے بھڑکانے والا امریکا یہی کچھ شام میں دہراتا رہا ہے، یہی کچھ شام سے پہلے لیبیا میں کیا گیا لیکن شام میں یہ سب کچھ اس بیہودہ طریقے سے کیا گیا کہ امریکا جن گروپوں کیخلاف افغانستان میں دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑنے کا کہتا ہے، انہی گروپوں کو شام میں کبھی متعدل باغی کہا جاتا ہے اور کبھی انقلابی اور جب یہ انقلابی اپنے انقلاب سمیت یورپ کے کسی ملک میں جا گھستے ہیں یا امریکا میں اپنے نظریاتی حامیوں کی مدد سے قتل و غارت کرتے ہیں تو امریکا پھر دہشت گردی سے لڑنے کا کھوکھلا دعویٰ دہراتا نظر آتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں افغانستان پر امریکی پالیسی کی، امریکا افغانستان کے حوالے سے جس قسم کے الزامات پاکستان پر لگاتا ہے لگ بھگ امریکا کی افغانستان پالیسی انہی اصولوں کے گرد گھومتی ہے، اچھے اور برے طالبان کی تفریق امریکی پالیسی کا بھی حصہ ہے، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہ جو افغانستان میں موجود ہیں ان کو بھی کسی حد تک امریکی حمایت حاصل رہی ہے، جس کا نقصان افغانستان اور پاکستان دونوں کی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے، جب تک اچھے اور برے طالبان کی تفریق موجود رہے گی دونوں جانب پاکستانی اور افغان عوام ایسے ہی خاک و خون میں لتھڑے رہیں گے۔

دہشت گردی کو ختم کرنا اسی صورت ممکن ہے جب ہم دہشت گردی کے پیچھے موجود نظریات اور وجوہات کو ناصرف ڈھونڈیں بلکہ کھل کر ان کا اظہار کرتے ہوئے اس سے طاقتور بیانیہ بھی سامنے لائیں گے، یہ کہہ دینا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب یا فرقہ نہیں ہوتا یہ کافی نہیں، جب دہشت گردی یا جہادی گروہوں  کو خارجہ یا دفاعی پالیسی کا حصہ بنایا جائے تو پھر یقینی طور پر اس عفریت پر قابو پانا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 70 سے 80 ہزار پاکستانیوں کی قربانی دی ہے، جس میں شہری، فوج اور پولیس کے جوان، اسکول کے بچے، انصاف کے متلاشی نہتے پاکستانی اور ان کیلئے انصاف کی جستجو کرتے وکیل، مساجد اور امام بارگاہوں میں مصروفِ عبادت مسلمان، چرچ اور مندروں میں موجود عبادت گزار، غرض کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ نشانہ بنے ہیں جبکہ مارنے والوں کا نظریہ یہ ہے کہ ان کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں اور ایسی تمام کارروائیوں کی مذہبی توجیہات بھی پیش کی جاتی ہیں اور پھر ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو قاتل و مقتول، دہشت گرد اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کو ایک صف میں کھڑا کئے دیتے ہیں، یہ لوگ دراصل دہشت گردوں کے حامی ہیں، دہشت گردی ختم کرنے کیلئے جہاں اچھے اور برے دہشت گردوں میں تقسیم ختم کرنا ضروری ہے، وہیں دہشت گردوں کے نظریاتی حامیوں کو ان کے نظریات کے ساتھ بے نقاب کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

TALIBAN

US president

address to the nation

Tabool ads will show in this div