پاکستان کی مدرٹریسا

تحریر: کاشف وحید

دنیا میں کچھ لوگ اپنا مقصد انسانیت اور انسان کی محبت میں گزار دیتے ہیں اور الله کے کرم پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ملک ہے جہاں انسانیت کی مدد کرنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں جن میں ایدھی صاحب، صارم برنی جیسے لوگ موجود ہیں اور ان میں سے ایک روتھ کیتھرینا مارتھا فائو بھی ہیں جو 9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئی، ان کا تعلق عیسائی مذھب سے تھا۔

رُتھ فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے نہیات مجبوری میں فرار ہونا پڑا۔ جس کے بعد مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔ 1958ء میں رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جذام) کے مریضوں سے متعلق ایک فلم دیکھی اور جب 1960ء کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا تو انہوں نے یہاں آکر جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھ کر واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے لئے عطا کردی اور یہی نہیں بلکہ اپنا خاندان کو بھی چھوڑ دیا اور اپنی جوانی تک کی کوئی فکر نا کی۔

انہوں نے  کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سا فری کلینک قائم کیا جو کے ایک جھونپڑی میں تھا۔ "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ صرف جذام کے مریضوں کے علاج نہیں کرتا تھا بلکہ ان کے ساتھ لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اس وقت تک کوڑھ کو ایک ایسا عزاب سمجھا جاتا تھا کہ جس سے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ یہ گناہوں کا اور جرائم کی سزا ہے جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایسے بیمار شخص کے پاس کوئی جانا بھی پسند نہیں کرتا تھا بلکہ ایسے بیمار انسان کا کھانا پینا بھی الگ کردیا جاتا تھا۔

یہ عزیم شخصیت اپنے ہی ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کے بیمار مریضوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی، ان کا نیک جذبہ اور نیت صاف تھی تب ہی ان کے ہاتھوں میں شفاء بھی بہت تھی۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دور افتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔

پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔ حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔

ڈاکٹر رُتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی ہیں اور گزشتہ 56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل تھیں، انہیں پاکستان کی "مدر ٹریسا" بھی کہا جاتا ہے۔ رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد 10 اگست 2017ء کو 87 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔ یہ رتھ فاؤ کی ایسی تاریخ ہے جسے دیکھ کر ہر شخص ہیران ضرور ہوگا کیوں کہ یہ بھی ایک ہیرت کی بات ہے کہ اس عزیم شخصیت کو ہر ایک نہیں جانتا تھا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ان کا مقصد انسانیت یا پاکستان کی خدمت کرنا تھا۔

مجھے اس بات کو کہتے ہوئے بھی تھوڑا افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے وہاں کچھ ڈاکڑ ڈگری لینے کہ بعد پہلی بات اچھے پیسے کی کرتے ہیں اور اگر ان کی بات کو نا مانا جائے تو پھر ہڑتال شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا کچھ حد تک یہ بات بھی درست ہوگی مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ہم خود کوشش کریں تو ڈاکٹر رُتھ فائو کی طرح بہت سے بیماریوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔

 

Dr Ruth Pfau

mother teresa

Tabool ads will show in this div