الوداع ڈاکٹر رتھ فاؤ

افسوس کہ ڈاکٹررتھ فاؤ کے نام سے اکثر لوگوں کو آشنائی تب ہوئی جب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں یہ تو ہمارا المیہ ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ اس پاک سرزمین کے دامن میں ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں جنہیں نہ سراہے جانے کا شوق ہے نہ نمائش کی تمنا ۔وہ انسانیت کی خدمت کو اپنی دنیا میں آمد کا مقصد سمجھتے ہیں اور عبادت سمجھ کر اس مقصد کو پورا کرتے ہیں۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ بھی انہی فرشتہ صفت لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے کوڑھ جیسے مرض میں مبتلا لوگوں کو اپنا سمجھا اور انکی خدمت اور عیادت میں ہی زندگی بِتا دی ۔کوڑھ کا مرض جس میں انسانی جسم گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ،بدبو اتنی شدید ہوتی کہ اپنے بھی پاس أنے سے گریز کرتے ،گوشت ہڈیوں اور جسم سے الگ ہو کرروز تھوڑا تھوڑا کر کے گرتا رہتا اور اپنے گوشت کے ان گلے سڑے بدبودار ٹکڑوں کو سنبھالنے کے لیے مریض چن چن کر ایک کپڑے میں جمع کرتے رہتے۔ان کے جسم پر موجود گلے سڑے گوشت کی بدبو اس قدرشدید ہوتی کہ آخرکار اس مرض میں مبتلا افراد کو شہر کے باہر ایک جگہ منتقل کر دیا گیاجہاں انکے علاج معالجے کا کوئی بندوبست نہیں تھا،بلکہ اس جگہ کو اگر کوڑھیوں کے لیے موت کی انتظار گاہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا ،ایسے میں مشنری تنظیم سوسائٹی آف ڈاٹرز آف دی ہارٹ نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو اس مرض کے پھیلاؤ کے متعلق جاننے کے لیے پاکستان بھیجا لیکن یہاں کے مریضوں کی کسمپرسی اور ناگفتہ بہ حالت نے حساس دل رتھ کے قدم پاکستانی سرزمین کے ساتھ ہی باندھ لیے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد کوڑھیوں کی بستی( کوڑھی احاطت )اس حد تک لاچار اور بے بس تھی کہ رات کے وقت جب کوڑھی سو رہے ہوتے تو ریل کی بوگیوں میں رکھی اناج کی بوریوں سے تیز دانتوں والے چوہے نکل کر آجاتے۔ کوڑھیوں کے جسم کو کتر کتر کر کھاتے رہتے اورنیند میں سوئے کوڑھیوں کو اس بات کا احساس تک نہ ہوتا ،ان کی یہ حالت دیکھ کر رتھ نے اس مرض کے علاج کے لیے باقاعدہ ایک ادارہ کھولنے کا سوچالیکن پہلے قدم کے طور پر میکلوڈ روڈ پر ایک ڈسپنسری کھولی گئی جہاں نہ صرف مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا بلکہ انکے اہلِ خانہ کو بھی اس طرف مائل کیا جاتا کہ کوڑھ یا جزام کے مریض قابلِ نفرت نہیں ہیں اور انہیں اس طرح لاوارث چھوڑنا کسی بھی طور اس لیے بھی ٹھیک نہیں ہے کہ کل کو یہی مرض انہیں بھی ہو سکتا ہے اس لئیے بہتر ہو گا کہ مریض کے خاتمے کا انتظار کرنے کے بجائے مرض کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کریں۔

اس دوران ڈاکٹررتھ فاؤ پاکستانی ڈاکٹرآئی کے گل کا بھی تعاون حاصل ہوا اور پھرخدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ کوڑھ کے مریضوں کی شفا قدرت کی طرف سے ان کے ہاتھوں میں لکھ دی گئی اور انہیں اس قدر شہرت ملی کہ ہمسایہ ممالک سے بھی کئی مریض انہیں ڈھونڈتے ہوئے کراچی آپہنچے۔ مریضوں کی تعداد بڑھی تو ڈاکٹر رتھ نے اپنی زیرِنگرانی شہر میں کئی مزید ادارے کام کیے اور پھر یہی نہیں بلکہ جرمنی کی سڑکیں گواہ ہیں کہ جب انہیں مزید سرمائے کی ضرورت پڑی توانہوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے کئی ایک کے آگے ہاتھ پھیلایا اور وہاں سے ستر لاکھ روپے اکھٹے کر کے صرف کراچی ہی نہیں پاکستان کے کئی دوردراز علاقوں میں بھی اسی طرز کے سینٹرز قائم کئے اور پھر نہ دن دیکھا نہ رات ،اپنی ذات اور آرام و سکون کا خیال کیے بغیر اس مرض کے خلاف یوں جت گئیں کہ اللہ کی مدد سے پاکستان سے اس مرض کو ختم کر کے ہی دم لیا۔

 

یہ ڈاکٹر صاحبہ کی انتھک کوششیں ہی تھیں جن کی بدولت ۱نیس سو چھیاسٹھ میں اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو کوڑھ سے پاک ملک کا درجہ دیا ، انہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان نے انہیں اعزازی شہریت دی ،اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحبہ کو ہلالِ پاکستان،ستارہ قائد اعظم،جناح ایوارڈ نشانِ قائدِ اعظم ،اورآغا خان یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا گیا ،یہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی انکی خدمات کو سراہتے ہوئے نہ صرف انکے اپنے ملک جرمنی بلکہ دوسرے ممالک نے بھی کئی ایوارڈز سے نوازا۔

وہ پچھلے چھپن سال سے پاکستان میں موجود دکھی انسانوں کی خدمت میں بلاتوقف مصروف رہیں۔اس دوران وہ کراچی میں ہی قائم ایک غیر سرکاری تنظیم میری ایڈی لیپروسی سینٹرکے دو کمروں کے گھر میں رہائش پذیر رہیں،اور مزید قابلِ ذکر بات یہ کہ اپنے ملک،بہن بھائی ماں اور باپ کو صرف خدمت کے جذبے سے چھوڑ کر اس دیس میں بسنے والی رتھ فاؤ نے اپنے تمام تر عرصہ حیات میں جو بھی خدمات سر انجام دیں وہ تمام بلا معاوضہ تھیں۔

آج انیس اگست کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے رتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں ان کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی جا رہی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ انسانیت کی ایسی بے لوث خدمت کرنے والے مسیحاؤں کی شخصیت اور ان کی خدمات کو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے سامنے اجاگر کیا جائے تاکہ انکے دلوں میں بھی انسانیت کی خدمت کے لیے اسی طرح بے غرض کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور ایک شمع کئی شمعیں جلانے کا باعث بن کر مایوسی کے اندھیرے ختم کر ڈالے۔

Dr Ruth Pfau

Tabool ads will show in this div