عوام اور چیونٹی
حضرت سلیمان علیہ السلام جن و انس وغیرہ اپنے تمام لشکروں کو لے کر طائف یا شام میں ”وادی نمل”سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں تو چیونٹیوں کی ملکہ جو مادہ اور لنگڑی تھی اس نے تمام چیونٹیوں سے کہا کہ اے چیونٹیو!تم سب اپنے گھروں میں چلی جاوورنہ حضرت سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بے خبری میں کچل ڈالے گا۔ جی ہاں جب بادشاہ گزرتے ہیں تو راستوں میں آنے والی بستیوں کو بھی اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں ان کے سامنے رعایا محض ایک چیونٹی کی مانند ہوتی ہے، بادشاہ گھروں اور بستیوں کو خس و خاشاک کی مانند پھونکتے چلتے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہوا سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مشن جی ٹی روڈ کے دوران جب ایک معصوم پھول، پھولوں کی چند پتیاں معصوم ہاتھوں میں سمیٹے اپنے قائد پر نچھاور کرنے کے لئے جرنیلی سڑک پر آیا ، وہ تو بس اپنے قائد کی ایک جھلک کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھا مگر اسی قائد کے لاﺅ و لشکر میں شامل پاگل ہاتھی کی مانند چنگھاڑتی ہوئی گاڑی نے اس معصوم کو کچل کر رکھ دیا، ایک گھر کا چراغ گل ہوگیا ہے ، بادشاہ سلامت کے قافلے میں شامل کسی ایک نے اس معصوم کو اٹھانے کی کوشش نہیں کی،کسی نے رک کر اس ماں کی چیخیں سننے کی جسارت نہیں کی ، جانیں بچانے والی ایمبولینسز بھی زناٹے بھرتی ہوئی اس معصوم کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر گئیں، ستم ظریقی یہ کہ جائے حادثہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ریلی کے قائدین کے نزلہ و زکام کو دور کرنے کے لئے ایک ہیلی کاپٹر ایمبولینس بھی موجود تھی مگر معصوم احمد کا تڑپتا ہوا لاشہ ایک رکشے میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا، جہاں مسکرانے والا پھول ہمیشہ کے لئے بجھ سا گیا۔ معصوم احمد کی چیخیں ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی ہیں ، ان چیخوں اور درد کے سامنے میرے الفاظ بے بس ہیں میری زبان کنگ ہے ۔ لیگی قائدین معصوم بچے کی ماں کی چیخوں کو بھلا کر گجرات میں بھنگڑے ڈالتے رہے کسی نے بھی ماں کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ صرف آج ہی نہیں ہوا، پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں، سیاست کے بے رحم کھیل میں کتنے ہی بادشاہوں نے اپنی دکان چمکانے کے لئے کتنے گھروں کے چراغ گل کردئیے، ان بے گناہوں کو سیاسی شہید قرار دے کر ان کے والدین کے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی، کسی سیاستدان نے مارے جانے والوں کے لواحقین کو پیسے دے کر اور کسی نے اس کے اعزاز میں تعزیتی ریفرنس منعقد کرکے بے گناہوں کے والدین کو رام کرنے کی کوشش کی لیکن کسی سیاستدان نے کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ جن گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں ان گھروں سے مسکراہٹیں بھی دور ہو جاتی ہیں، جن افراد کے لخت جگر ان کی سیاسی دکان کی اونچائی کی بھینٹ چڑھے ان کے گھروں کی تنہائیاں ان سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا قصور کیا تھا۔سبھی سیاست دان، تمام سیاسی جماعتیں عوام کو بس چیونٹی سمجھتے ہیں، وہ چیونیٹیاں جنہیں روند کر انہیں بس اپنی منزل مسند اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے انہیں اس سے غرض نہیں کہ کون کب او رکیسے ان کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، انہیں بس غرض ہے تو اپنے اقتدار سے ، چاہے اس کے لئے کتنی ہی چیونٹیاں کیوں نہ مسلنا پڑ جائیں۔
جب تک عوام شعور نہیں حاصل کرے گی تب تک یونہی بادشاہ وقت کے مست ہاتھی انہیں کچلتے ہوئے گزر جائیں گے لیکن سیاستدانوں کا یہ رویہ بھی تکلیف دہ ہے کہ جن عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر وہ ایوان میں پہنچتے ہیں انہی کو چیونٹیاں سمجھتے ہیں۔اس رویے کو بدلنا ہوگا اس ملک کی تعمیر کے لئے ، اس دیس کے باسیوں کے بہتر معیار زندگی کے لئے کیوں کہ اقتدار کے مالک عوام ہیں نہ کہ انہیں چیونٹیاں سمجھنے والے سیاست دان۔ عوام کو اپنا حق حکمرانی جگانا ہوگا اور سیاست دانوں کے اس رویے کو بدلنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا