صحافتی بیربل

51ce9f3f0d632

****فرخ عباس****

پاکستانی جمہوریت  سیاسی برزجمہروں  اور صحافتی بیر بلوں میں کچھ ایسے پھنسی ہوئی ہے جیسے مشہور زمانہ ضرب المثل میں اکثر رضیہ کے غنڈوں میں پھنسنے کا  ذکر کیا جاتا ہے، گو یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ کیا ان غنڈوں نے رضیہ کو سچ مچ میں گھیر رکھا ہے یا دراصل رضیہ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں حفاظتی تحویل میں لے رکھا ہے؟ یہاں یہ سوال اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وطن عزیز میں تقریبا سب کچھ  ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا جاتا ہے، ہاں کبھی کبھی اس میں جمہوریت، ملکی وقار، اسلام  اور امہ کے تڑکے کے ذریعے اٹھارہ مصالحے پورے  کیے جاتے ہیں،  یہاں آوے کا آوا کچھ ایسا بگڑا ہے  جمہوریت ہو یا ملکی وقار، یہاں تک کے اسلام بھی جب کسی معاملے  کا حصہ بنتے ہیں یا زبر دستی بنائے جاتے ہیں  تو  ننانوے فیصد ان کا استعمال  چند لوگوں کی انا کی تسکین، ذاتی مفاد  یا  ان سے جڑے معماملات کا تحفظ ہی ہوتا ہے۔

577898-journalist-geneva

پہلے صحافی سیاست دانوں کی خبریں دیتے تھے ، اور کبھی کبھی''  خبر '' لے بھی لیتے تھے، اب اکثر سیاسی کارکن  صحافت کے لبادے میں اپنے  اپنے سیاسی مرشدوں کے سیاسی مزار ات کے گرد دیوانہ وار بھنگڑا ڈالے دیکھے جاسکتے ہیں، سابقہ نا اہل وزیر اعظم  جن کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اچھی حس مزاح کے حامل ہیں اور اسی قسم کے لوگوں کو پسند کرتے ہیں، اس بات کی اس سے بڑی گواہی کیا ہوگی کہ محض لطیفے سنانے والے حضرات ان کے نا صرف انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں بلکہ کچھ کو تو نا صرف مشیری کا اعزاز بخشا گیا  بلکہ چند ایک تو سفارت کاری جیسے اہم فرائض بھی '' سر انجام  '' دے چکے ہیں، پاکستان کی '' مضبوط ، موثر ، اور کامیاب '' سفارتکاری  کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا۔

1399105806-2478

 یہ دانشور نا صرف لطیفے سنانے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ بادشاہ سلامت کو تقریروں میں  ایسی  باتیں لکھ کے دینے میں بھی مہارت رکھتے ہیں کہ جس کے بعد  " حضور یہ ہیں وہ ذرائع '' جیسے لازوال لطیفے وجود میں آتے ہیں، اکثر تو  ماہر موسمیات بھی ہیں جنہیں بادلوں کی آنیوں جانیوں میں بھی ان کی سیاسی شخصیات سے محبت اور الفت  جیسی اہم معلومات  تک رسائی حاصل ہے، اور پھر کمال تو یہ کہ ایسی ہوشربا کہانیوں کو صفحہ اول پر شائع کرنے وانے  ''اخبارات '' بھی اصولی اور آزاد صحافت کا ڈھنڈوا پیٹتے نظر آتے ہیں، اور ایسی صحافت سے اتفاق نہ کرنے والے نا صرف صحافت کی دنیا سے بے دخل قرار دیے جاتے ہیں بلکہ ان پر جمہور  اور جمہوریت دشمنی جیسا الزام لگانا بھی روز کا معمول ہے۔

pakistani-politics

جیسے ایک طبقہ خود سے اختلاف کرنے والوں کو ملک دشمن، غدار تک قرار دے دیتا ہے، ویسے ہی یہ صحافتی بیربل اپنے سیاسی آقاوں  اور انکی تعفن زرہ سیاست کے دفاع میں ہر اختلاف کرنے والوں کو جمہور اور جمہوریت دشمن قرار دینے میں ایک لمحے کی تاخیر کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔جیسے اکبر اعظم کے نو رتن مشہور تھے ویسے ہی سابق نا اہل وزیر اعظم کے لگ بھگ اتنے ہی مشیر تھے جنہوں نے چوہدری نثار کے بقول موصوف کو اس نہج تک پہنچانے کا کام بخوبی سر انجام دیا ہے۔ چوہدری صاحب نے خود بھی ایک وعدہ کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدہ کب وفا ہوتا ہے۔ ویسے اس کامیابی کے بعد یہ صحافتی بیربل اخباروں میں نئی نوکری تلاش کرنے کے لیے اشتہار بھی چھپوا سکتے ہیں ، جس میں  قابلیت کے خانے میں '' منتخب وزیراعظم کو نا اہل کروانے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے '' جلی حروف میں لکھا جا سکتا ہے۔

com.pkmedia.indiapakistantv-screenshot1.png

ان صحافتی بیربلوں کے علاوہ کچھ سیاسی بزرجمہر بھی اس تمام صورتحال میں یقینی طور پر برابر کے شریک ہیں، سپریم کورٹ ہو یا جے آئی ٹی، ہر پیشی کے بعد منہ سے جھاگ نکالتے    خود کو گیم آف تھرونز کے ڈریگنز خیال کرنے والے چھاتہ بردار سیاست دان بھی نئی کابینہ میں ملنے والی کرسیوں  کے تاحال صدقے واری جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت موجودہ ہو یا سابقہ، یا نوے کی دہائی والی دو حکومتیں، ہمیشہ  خود کو سیاسی طور پر کمزور کرنے میں خود کفیل رہی ہیں، جس کا سہرا صد فیصد ان سیاسی صحافیوں  کے مشوروں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار چھاتہ بردار سیاست دانوں  کے  دعوں کے سر جاتا ہے۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت یہ سیاسی بزرجمہر اور صحافتی بیربل  یہ سب کر رہے ہوتے ہیں ٹھیک اسی وقت یہ کسی نئے شکار اور  سیاسی ٹھکانے کی تلاش میں بھی  سرگرداں ہوتے ہیں تا کہ جیسے ہی موجودہ کشتی کسی  بھنور میں مافق رضیہ پھنسے  یہ چھلانگ لگا کر کسی محفوظ مقام پر اپنی دانشوری اور سیاست سمیت پناہ حاصل کر سکیں۔

551fa2307b330

فرخ عباس صحافی ہیں، سیاسی حالات اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں- بلاگز میں اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ سماء

political parties

JOURNALIST

Tabool ads will show in this div