سیاسی وفاداریاں

NAWAZ & PM KHAQAN NEW STILL 02-08

میاں محمد نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو پورے ملک میں ایک بے یقینی اور بے چینی کی فضاء تھی اس کا اندازا اسٹاک مارکیٹ کی ایک دم گراوٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پاکستان کے ہرشہری اورہر سیاست کي زبان پرایک ہی سوال تھا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ جب نام خواجہ آصف کا آیا تو چوہدری نثارکی اچانک طبيعت خراب ہوگئی۔ جس سے کافی لوگوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ شاید معاملات ٹھیک نہیں لگ رہے۔ میں نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں دیکھا جب اینکر نے شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا کہ کیا آپ امید وار ہیں تو خاقان عباسی نے مسکراتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بہت شائستگی سے انکار کردیا ۔ مگر جب اچانک خاقان عباسی کا نام سامنے آیا تو ہر شخص حیران رہ گیا اور میاں صاحب کے قریبي ساتھی جن لوگوں کامشورہ دے رہے تھے ان میں کہیں تو شہباز شریف کا ذکر بھی نہیں مگر شہباز شریف کا نام نواز شریف نے خود تجویز کیا۔ خیر خاقان عباسی کو ہميشہ نواز شریف کے قریب سمجھا جاتا پر اکثر وہ بھری میٹنگ سے سیدھی اور سچی بات کر جاتے ہیں۔

خاقان عباسی کو اچانک وزیراعظم بنانے کی وجوہات میں شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاناما کا ہنگامہ ہونے کہ بعد انہوں نے اپنے قائد نوازشریف کا بھرپور طور دفاع کیا ہرفورم پر دوسری جانب ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاہد خاقان عباسی ایک غیر متنازع شخصیت ہیں ان کے تعلقات چوہدری نثار سے بھی بہت اچھے ہيں تو دوسری جانب خواجہ آصف اور باقی لیگی رہنماؤں سے اچھے تعلقات  اور احترام کا اچھا رشتہ ہے۔ ان باتوں کے علاوہ ان کو وزیراعظم بنانے کی تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ 1999 کی فوجی بغاوت کےبعد جب نوازشریف پرطیارہ ہائی جیک کیس کا الزام لگایا گیا تو ان میں شاہد خاقان عباسی کا بھی نام تھا۔ عباسی صاحب اس وقت پی آئی اے کے چئیرمین تھے۔

 ان پرالزام تھا کہ انہوں نے جہاز کو کراچی اترنے نہیں دیا اور 200 کے قریب لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالا گیا۔ اس شاہد خاقان عباسی کو بھی لانڈھی جیل منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے زندگی کے کئی دن گزارے ۔ شاہد خاقان عباسی پر اس وقت شدید دباؤ تھا وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی بات پر قائم رہے اور وعدہ معاف گواہ نہیں بنے۔ بالآخر مشرف حکومت سول ایوی ايشن اتھارٹی کے ڈی جی امین اللہ چوہدری کو وعدہ معاف گواہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔جنہوں نے بیان دیا تھا کے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے انہیں خود کال کرکے حکم دیا کے طیارہ کراچی نہ اتر پائے۔ شاہد خاقان عباسی کو پی آئی اے کے 200 کمپیوٹرز کی خریداری کے گھپلے میں گرفتار کرلیا گیا اور دو سال بعد انہيں رہا کردیا گیا لیکن وہ کراچی کی اینٹی کرپشن کی عدالت میں کئی سال تک بھگتے رہے۔

اس مقدمے سے نجات انہیں 2008 میں پپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملی۔ جس بہادری سے خاقان عباسی نے یہ وقت لانڈھی جیل میں جس بہادری سے گزارا اس کا ذکران کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد خاقان عباسی نے جو خطاب قومی اسمبلی میں کیا اس سے ان کے ساتھی بہت خوش نظر آتے ہیں کیونکہ اس میں انہوں نے اپنے قائد نوازشریف کا بھرپور دفاع کیا۔

پاکستان میں سیاسی تبدیلیاں اور وفاداریاں تو بدلتی ہي رہتی ہیں کوجو کہ عام سي بات ہے مگرایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کافی زيادہ عرصہ ساتھ رہیں اور خاقان عباسی کا ذکر بھی میاں صاب کہ ان چند ساتھیوں میں سے ہے جنہوں نے اچھا اور براوقت اپنے قائد کے ساتھ گزارا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں اتنے بڑے عہدے سے نوازا گیا۔ شاہد خاقان پر ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر انداز میں اس ذمہ داری کو پورا کریں۔

shahid khaqan abbassi

Tabool ads will show in this div