کاروباری سیاست کی ایک دکان بند

Nawaz-Sharif-main-640x384

تحریر: ناصر فاروق

سياست اور کاروبار بہت دور تک ساتھ ساتھ نہيں چل سکتے، کيونکہ ايک وقت خاص کے بعد يہ سياست کا کاروبار بن جاتا ہے، جو بلا شبہ آگے چل کر بڑا جرم بن جاتا ہے۔ عين يہي کچھ مياں نواز شريف کے ساتھ ہوا ہے۔ مياں صاحب کي سياست کا پہلا محرک ہي کاروباري مخاصمت يا انتقام تھا، اور مياں صاحب کا سياسي انجام بھي کاروباري نوعيت کا ہي نکلا۔ وہ سياست کے کوچے سے بڑے بے آبرو ہوکر نکلے، اور يہ سب کچھ کاروباری سیاست کے ہي وجہ سے ہوا۔ وہ آخری وقت تک یہی سمجھتے رہے کہ سب کچھ خریدا جاسکتا ہے۔

مياں محمد نواز شريف پچيس دسمبر انيس سو اننچاس کو لاہور ميں پيدا ہوئے۔ سينٹ اينتھوني اسکول سے ابتدائي تعليم حاصل کي۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے پنجاب يونيورسٹي پہنچے، اور قانون کي ڈگري حاصل کي۔ نوجواني کرکٹ کھيلتے، فلميں ديکھتے اور ڈرائيونگ کرتے گزری۔ صنعت کار والد مياں محمد شريف کے ساتھ کاروبارميں شريک ہوئے۔ اتفاق گروپ ميں شوگر، اسٹيل، اور ٹيکسٹائل کے شعبے سنبھالے۔ يہ وزيراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کا عہد تھا، وہ اداروں کو قوميا رہے تھے۔ سن چھيتر ميں اتفاق گروپ بھي قوميا ليا گيا۔ يہ نواز شريف سے برداشت نہ ہوا اور پيپلز پارٹي سے انتقام لينے کيلئے سياست ميں کود پڑے۔ مسلم ليگ ميں شامل ہوئے اور ضياء الحق کي پنجاب کابينہ ميں وزير خزانہ بنے۔ کاروبار کا نقصان سياست کا منافع بنتا چلا گيا۔ سن پچياسي ميں مياں صاحب وزيراعلٰي پنجاب منتخب ہوئے۔ ضياء دور ميں نواز شريف کي سياست کو ايسے پہیے لگے کہ سيدھے وزارت عظمٰي تک جا پہنچے۔ ضياء الحق کے بعد نواز شريف نے پہلا کام مسلم ليگ ميں ٹوٹ پھوٹ کا کيا۔ اپنے نام جملہ حقوق محفوظ کروا ليے، اب يہ پاکستان مسلم ليگ نواز گروپ بن چکي تھي۔ کاروبار ميں سياست زدہ منافع دن دوگني رات چوگني ہورہا تھا۔ بچے جيسے جيسے بڑے ہورہے تھے، دولت بھي بڑي ہوتي جارہي تھي۔

Panama-640x360-640x360

پيپلزپارٹي سے انتقام اب سياسي منافع کي محبت ميں ڈھل چکا تھا۔ نواز شريف بڑے بڑے منصوبوں ميں بڑے بڑے فائدے ديکھ رہے تھے۔ اس کيلئے اسلامي جمہوري اتحاد کا پليٹ فارم استعمال کيا، اکانوے ميں پہلي بار وزيراعظم بنے۔ مکمل اختيارات کے چکر ميں مات کھا گئے، صدر غلام اسحاق خان نے ترانوے ميں قومي اسمبلي تحليل کردي۔ مگر میاں صاحب کے کاروبار چلتے اور پھلتے پھولتے رہے۔ بھارت کي بڑي بڑي منڈيوں کے بارے ميں بڑي بڑي آنکھوں سے بڑے بڑے خواب بنتے رہے۔ متحدہ عرب امارات ميں مليں الگ انڈے بچے دے رہي تھيں۔ سن ستانوے ميں مياں صاحب دوسري بار وزيراعظم منتخب ہوئے اور کاروبار کو کرپشن ملي بھگت نے بہت جلد عدليہ سے الجھا ديا۔ ن ليگ کے کارکنان نے اس موقع پر تاريخ رقم کردي اور سپريم کورٹ پر حملہ ہي کر ديا۔ افسوسناک مناظر تھے۔ غرض سن ننانوے ميں کارگل مس ايڈونچر کے بعد بھارت کي محبت دوسري وزارت عظمٰي بھي لے ڈوبي۔ ننانوے ميں فوج کی طرف سے ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان پر مقدمہ چلا، جو "طیارہ سازش کیس" کے نام سے مشہور ہوا۔ کئي سال سعودي عرب ميں شاہانہ زندگي گزاري، کاروبار جمکتا دمکتا رہا۔ اگست دوہزار سات ميں وطن لوٹے۔ ججز بحالي کيلئے لانگ مارچ کا حصہ بنے۔ مئي دوہزار تيرہ ميں نوازشريف تيسري بار وزيراعظم منتخب ہوئے۔ اپريل دوہزار سولہ ميں پاناما پيپرز اسکينڈل سامنے آگيا، اور پھرسياست کا کاروبار تھوڑا بہت کُھل کرسامنے آگيا۔ مني لانڈرنگ اور ٹيکس چوري کے الزامات لگے، اور نظام انصاف کا طويل اور پيچيدہ عمل چلتا رہا، يہاں تک کہ فيصلہ آگيا اور کاروباری سیاست کی یہ دکان بند کرنی پڑي۔ سو، نواز شريف عہدے سے نااہل قرار پائے۔

اب ديکھنا ہے يہ ہے کہ کاروباری سياست کي ديگردکانيں کب بند ہوتي ہيں؟ کس طرح بند ہوتي ہيں؟ اور کب سياست ميں جذبہ خدمت فروغ پاتا ہے؟ کب اس قوم کو ديانت دار سچے سياستدان ميسرآتے ہيں؟

ZIA UL HAQ

SC verdict

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div