سازشی تھیوریاں اورسوشل میڈیا

lahore-blast

ماس کمیونیکشن ریسرچر کے طور پر روزانہ درجنوں تحقیقاتی مضامین پڑھنے کا موقع ملتا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے کئی تحقیقی مضامین نظر سے گزرے ، مضامین میں جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں وہ یقینا ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کر تے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مضمون پڑھا جس میں محقق کا کہنا تھا کہ کسی قوم کو غلام بنانے کے لئے اس میں سازشی تھیوریوں کو فروغ دیں۔ یعنی اپنی غلطیوں پر پردا ڈالنے کے لئے الزامات دوسروں کے سر ڈال دو۔ ہمارے ہاں اکثر گھر کے مسائل کا سارا الزام پڑوسیوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں اگر کوئی امتحان میں اچھے نمبر نہ حاصل کر سکے تو آگے بڑھنے والے طالب علم کو اساتذہ کا چہیتاگردان کر اسے معطون ٹھہرایا جاتا ہے۔ہر شخص کی اپنی ہی سازشی تھیوری ہوتی ہے،ہر شخص نے اپنا اپنا ہدف متعین کیا ہوتا ہے کہ اس کے غلطی کے پیچھے فلاں انسان کا ہاتھ ہے۔

گذشتہ دنوں لاہور میں پولیس کے نوجوانوں پر خود کش حملہ ہوا۔ فرائض منصبی ادا کرنے والے جانبازوں کو ہدف بنایا گیا۔ سیکورٹی ادارےاپنی کارروائیوں میں مصروف تھے لیکن ہمارے سوشل میڈیا کے دانشور اسے اپنے ہی انداز سے دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ میڈیا پر بیٹھے ہوئے نا بالغ تجزیہ کار بھی اسے اپنی مخصوص عینک سے کوئی اور رنگ دے رہے تھے۔میڈیا مانیٹرنگ کےدوران تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ بعض افراد اخلاقی طور پر اس حد تک گر جائیں گے۔خیرسوشل میڈیاکوآزادی اظہار رائے قرار دینے والے تجزیہ کار جن کی بات شاید گھر اور محلے میں کوئی نہیں سنتا، وہ بھی اس پر اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے۔ یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی واردات اور حادثہ رونما ہو جائے، ہم اسے سیاست سے جوڑ کر اس واقعے کے حقائق سے نظریں چرانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس پراپنی ماہرانہ رائےدےکرجہاں ایک جانب خودکوتجزیہ کاراوردانشور ثابت کرنےکی کوشش کرتے ہیں،وہیں دوسری جانب بے پر کی اڑاکرقوم کومنتشرکرنےکافریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔سوشل میڈیا کے فروغ پانے سے یوں محسوس ہوتا ہےکہ جیسے بندرکےہاتھ میں ماچس آگئی ہو اور وہ اپنی نادانی کی وجہ سے ایک پل میں سارے جنگل کو خاکستر کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔اسے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جنگل میں اس کا اپنا آشیانہ بھی ہے۔ میں سوشل میڈیا کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ اس کے نامناسب استعمال اور اس فورم پر اپنی افواہوں اور غلط خبروں کو فروغ دینے والے تجزیہ کاروں کے نامناسب رویے کی وجہ سے میں اس سے خائف ہوں۔

epa05233142 The site of the 27 March explosion is sealed off with barrier tape and bared wire on the day after a suicide bomb blast in Lahore, Pakistan, 28 March 2016. At least 70 people inlcuding women and children were killed in a suicide bomb attack on 27 March that targeted a public park in Lahore. According to rescue services figures some 340 people were injured in the attack.  EPA/RAHAT DAR

یاد رکھیے،ملک میں دہشت گردی کے واقعات پرآپ کی نامناسب اورغیر ذمہ دارانہ رائے زنی جہاں سیکورٹی اداروں کےکام میں مسائل پیدا کرتی ہے، وہیں ہمارے ملک کے امن کے دشمنوں اور دہشت گردوں کے لئے بھی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خبر نشر ہونے سے قبل کئی ذرائع سے اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور ذمہ داری کے بعد ہی اسے ناظرین تک پہنچایا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر آپ کی جانب سے پھیلائی گئی خبر یک لخت ہی وائرل ہو جاتی ہے اور آپ جانے اور انجانے میں دشمن کے ایجنڈے کو فروع دینے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ قومیں غیر ذمہ دارانہ رویہ سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں جبکہ ذمہ دارانہ رویے قوموں کو نہ صرف خوشحالی کی جانب لے جاتے ہیں بلکہ اتحاد و یگانگت کا ایک گلدستہ بنا دیتے ہیں۔

لاہور دھماکے اور اس جیسے کئی واقعات میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی سازشی تھیوریاں دراصل ملک دشمن قوتوں کا بچھایا ہوا ایک جال ہے جس کے ذریعے وہ  قوم کو منتشر کرتے ہیں اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اپنے گھناؤنےمقاصدحاصل کرتے ہیں۔ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے اور سازشی تھیوریوں کا شکار ہونے کی بجائےمحب وطن پاکستانی بن کر ملک کی سالمیت کے لئے کردار ادا کریں اور ملک کو امن کا گہورا بنائیں۔

FACE BOOK

lahore blast

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div