عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان
۔۔۔۔۔** تحریر : فرحان سعید خان **۔۔۔۔۔
عالمی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) کا ادارہ جون 1945ء میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر قائم ہوا اور اپریل 1946ء میں اس نے کام شروع کیا، مختلف ممالک جب اپنے مقدمات کیلئے اس سے رجوع کرتے ہیں تو یہ انہیں ان کے مقدمات پر ہدایتی رائے فراہم کرتا ہے، اس کورٹ میں 15 ججز شامل ہوتے ہیں اور اس کی آفیشیل لینگویجز انگلش اور فرنچ ہیں، ہمیشہ سے ہی بہت سے ممالک اپنے مقدمات کو لیکر عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے ہیں۔
سال 1982ء میں 2 جرمن بھائی اریزونا میں گرفتار ہوئے ان پر چوری اور قتل کا مقدمہ تھا، جرمنی اس کیس کو آئی سی جے میں لے گیا، جس پر اس کا مؤقف تھا کہ جرمن حکومت کو مطلع نہیں کیا گیا اور قونصل رسائی نہیں دی گئی، لیکن اپیل کے باوجود امریکا نے ان کی موت کی سزا پر عملدرآمد کردیا۔
سال 2003ء میں امریکا میں میکسیکو کے 54 افراد کو مختلف وارداتوں میں شامل ہونے کہ وجہ سے موت کی سزا سنائی گئی، میکسیکو امریکا کے اس کیس کو لیکر عالمی عدالتِ انصاف میں چلا گیا لیکن امریکا کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ امریکا کیلئے بائنڈنگ نہیں ہے، جب تک کہ امریکا کی کانگریس ایسا قانون نہ پاس کردے، جس میں کہا جائے کہ امریکا آئی سی جے کے فیصلے کا پابند ہے تاہم امریکا نے آئی سی جے کا فیصلہ نہ مانا اور ان سب کو موت کی سزا دے دی۔
دس اپریل 2017ء کو بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پاکستانی آرمی ملٹری کورٹ نے سزائے موت سنائی، بھارت نے اس فیصلہ کیخلاف آئی سی جے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پاکستان بھی آئی سی جے میں چلا گیا لیکن سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف کو سماعت کا اختیار ہی نہیں تھا، کلبھوشن نے خود اپنے جرائم کا ارتکاب کیا اور خود مختار ریاست میں اگر کوئی اپنے جرم کا ارتکاب خود کرے تو حکومت قانون کے مطابق سزا دے سکتی ہے۔
اسی طرح بقول سابق صدر پرویز مشرف چونکہ کلبھوشن کا معاملہ ہمارا سیکیورٹی ایشو ہے، اس لئے ہمیں آئی سی جے میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، لیکن پاکستان چلا گیا جبکہ بھارت خود آج تک کبھی ہمارے معاملات پر بارہا بلانے کے باوجود بھی عدالتِ انصاف میں نہیں آیا اور کشمیر کے معاملے پر بھی آج تک عالمی ثالثی قبول نہیں کی لیکن کلبھوشن کے معاملے پر بھارت نے 8 مئی کو آئی سی جے کا دروازہ کھڑکایا اور 18 مئی تک اپنا مؤقف منوالیا، اس پر ایک بات جو زبان زدِ عام ہے وہ یہ کہ پاکستان کھل کر اپنا مؤقف بھی بیان نہیں کرسکا۔
پاکستان کی طرف سے اس کیس کے وکیل خاور قریشی تھے کیس کو پیش کرنے کیلئے 90 منٹ کا وقت دیا گیا لیکن پاکستان کے وکیل نے 50 منٹ میں اپنی بات مکمل کردی اور 40 منٹ ضائع کردیئے جبکہ ماہرین کے مطابق اس عدالت میں جو وقت دیا جاتا ہے وہ بہت محدود ہوتا ہے، اپنا مؤقف ٹھیک بیان نہ کر پانے کی وجہ وقت کی کمی کو قرار دیا گیا جبکہ آئی سی جے سے تیاری کیلئے وقت مانگا جاسکتا تھا، پاکستان کی طرف سے ایڈہاک جج بھی نہیں لگایا گیا، جو فیصلہ آیا اس میں بھارتی جج کی رائے تو شامل ہے لیکن پاکستان کی نہیں۔
کلبھوشن کیس پر آئی سی جے کا جو بھی فیصلہ ہو لیکن قومی سلامتی کو دیکھتے ہوئے اس پر سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں اور ماضی میں کئی ایک ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جس میں ملکوں نے اپنی قومی سلامتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئی سی جے کے فیصلوں کو پسِ پشت ڈال دیا جیسا کہ امریکا کے 2 کیس۔
بھارت کے اپنے رویے کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی بہت خراب رہ چکا ہے، بھارت نے مقبول بھٹ اور افضل گرو جوکہ حریت پسند تھے، ان کو پھانسی دے دی، ان کے گھر والوں کو بھی ان سے نہ ملنے دیا اور لاشیں بھی لواحقین کے حوالے نہ کیں، اجمل قصاب کو اس وقت پھانسی دے دی گئی جب پاکستانی تفتیشی ٹیم دہلی پہنچ رہی تھی۔
کلبھوشن کے معاملے پر پاکستان کو بھی ہرگز رعایت نہیں برتنی چاہئے، ایک کلبھوشن کو آزاد چھوڑنے کا مطلب مزید کسی کلبھوشن کو اپنے ملک کا راستہ دکھانا ہے، تاہم قومی سلامتی کیلئے اسے منطقی انجام تک پہنچانا انتہائی ناگزیر ہے۔