ہوامیں جھولتی زندگیاں
تحریر: مہوش ابصار
کراچي ميں کوئي بےروزگار ہو، کام کاج نہ کرتا ہو تو کميٹي ڈال کر يا کسي رشتہ دار سے پيسے ادھار لے کر رکشہ خريد ليتا ہے۔ رشتہ دار بھي يہ سوچ کر پيسے ديتے ہيں کہ پيچارے کا گزر بسر ہوجائےگا، دو وقت کي روٹي کما لےگا۔ ايسا ہي کچھ ہوتا ہے خيبرپختونخواہ کے بالائي علاقوں ميں جہاں اگر کوئي بےروزگار ہو۔ يا کوئي کاروبارکرنا چاہتا ہوتو کسي سے ادھار ليکر يا کميٹي ڈال کر ڈولي لفٹ لگا ليتا ہے۔
آخر يہ ڈولي لفٹس ہيں کيا؟شمالي پہاڑي اور دريائي علاقوں ميں خطرناک اور بپھرے ہوئے دريا عبور کرنے کيلئے مقامي افراد جس سواري کا استعمال کرتے ہيں وہ ڈولي لفٹس کہلاتي ہيں ۔ ان ڈولي لفٹس کو مقامي افراد ہاتھ سے ہي تيار کرلتےہيں۔ بس ايک لمبي سي کيبل خريدي جاتي ہے،لکڑي يا راڈ،لوہے کي مدد سے ايک چھوٹي سي ڈولي تيار کرلي جاتي ہے۔ بس بن گئي ڈولي لفٹ۔
جس کے پاس زيادہ پيسے ہوں وہ اس لفٹ ميں موٹرسائيکل کا انجن لگا ديتا ہے۔ ورنہ ہاتھ سے ہي چلائي جاتي ہے۔ اکثر شمالي علاقوں ميں درياؤں پريہ ڈولي لفٹس نظر آتي ہيں ۔ يہ لفٹ کوئي معمولي کام نہيں کرتي کیونکہ يہ چھوٹي سي لفٹ بڑے کام کي ہے جس میںٕ بيک وقت 8 سے 10 افراد ایک ساتھ بیٹھ کرخطرناک درياعبورکرلیتے ہیں۔ مقامي افراد دريا عبور کرنے کيلئے انہي لفٹس کا سہارا ليتے ہيں۔ يہ بےسہارا ڈولياں اکثر درياؤں پر ڈولتي ديکھي جاتي ہيں جن کا کرايہ رکشے سے بھي کم صرف بيس روپے ہے۔
درياؤں پرڈولتي يہ ڈولياں اکثر دريا ميں گر جاتي ہيں، کبھي ان کا رسہ ٹوٹ جاتا ہے تو کبھي گنجائش سے زائد افراد بٹھانے پر يہ نازک ڈولياں بيچ راستے ٹوٹ جاتي ہيں اور مسافروں کا سفر وہيں تمام ہوجاتا ہے۔ کئي کي تو لاشيں بھي نہيں مل پاتيں تو کہيں کوئي اپنے پياروں کا راستہ ہي تکتے رہ جاتے ہيں۔ان درياؤں سے بچنا عموماً نا ممکن ہے۔ کم ہي خوش قسمت ہوتے ہيں جو زندہ بچ جاتےہيں۔
پندرہ جولائي کو وادي کالام کے گاؤں پاليرميں ايک خوفناک حادثہ پيش آيا جہاں دريائے سوات عبور کروانے والي ڈولي لفٹ کے مسافروں کو کیا خبرتھی کہ سفر بیچ میں ہی تمام ہوجائے گا۔ ہلکی سی ڈولی ميں سات افراد سوار تھے جو دريائے سوات ميں ڈوب گئے۔ انتيس جون کو لورہ کے قريب بھي ايک خستہ حال ڈولي لفٹ گرگئي تھي ، یہ المناک حادثہ بھی چند لمحوں ميں تيرہ زندگیوں کا خاتمہ کرگیا۔
ايسے کئي حادثات معمول کی بات ہیں،لوگ مرتے رہتےہيں اور حکومت صرف افسوس کرکے رہ جاتي ہے۔ کبھي کبھار کچھ دنوں کيلئے ان ڈوليوں پر پابندي بھي لگا دي جاتي ہے ليکن پھر سب نارمل ہوجاتا ہے، لوگ بھي بھول جاتے ہيں اور حکومت تو پہلے سے بھولي ہوئي ہے۔
مقامي افراد ايک بار پھر کام کاج پر جانے، بچوں کو اسکول بھيجنے کے لیے انہي لفٹس کا استعمال کرنے لگ جاتےہيں۔ شمالي علاقہ جات کے مقامي افراد کوئي خطرے کے کھلاڑي نہيں جو ان لفٹس پر اسٹنٹ کے شوق ميں سفر کرتے ہوں بلکہ يہ سفر ان کي مجبوري ہے کيوںکہ ان پرخطر راستوں پر تبديلي کا دعویٰ کرنے والي خيبرپختوخواہ کي حکومت نے رابطہ پل بنانے ميں کوئي دلچسپي نہيں لي ۔ دوسرا جو رابطہ پل ہيں وہ اپني مدت پوري کرچکے ہيں، مناسب ديکھ بھال نہ ہونے اور موسمي اثرات سے اس قدر کمزور ہوچکےہيں کہ کسي بھي وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتےہيں۔
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا ۔ کوئی ٹھرا نہیں حادثہ دیکھ کر !!!۔