امریکا کا ٹرمپ کارڈ
تحریر: افضال فاروقی
ٹرمپ کارڈ کی اصطلاح اس موقع پر استعمال ہوتی ہے جب آپ کے پاس مخالفین کو زچ کرنے کےلیے کوئی خفیہ ہتھیار یا بندہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عموما سرپرائز انٹری بھی ہوتی ہے جس سے مخالفین پریشان ہوجاتے ہیں اور ان کی غلطی کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
امریکا کی صدارت جن صاحب کے پاس ہے ان کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ اگرچہ یہ وہ والے ٹرمپ تو نہیں مگر خود کو امریکا کا ٹرمپ کارڈ سمجھنے کی غلطی کرگئے ہیں۔ ٹرمپ نے صدارت ملتے ہی وہ کچھ کرنا شروع کیا جو عام طور پر بندر کو ناریل ملنے کے بعد کرتے دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ پوت کو پاؤں پالنے میں ہی نظر آگئے تھے، یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ہی ایسے بیانات داغے تھے کہ کچھ کچھ اندازہ ہوگیا تھا کہ منصب صدارت پر آتے ہی وہ کیا کریں گے۔
امریکا کو محفوظ ملک بنانے کے دعوے دار حکمرانوں نے مخالفین کو کچلنے کے دوران ایسے اقدامات کئے کہ امریکا بجائے محفوظ ہونے کے غیرمحفوظ ہوتا چلا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف چند ماہ میں ہی امریکا میں اپنے خلاف اتنی نفرت جمع کرلی جتنی وہ ایک سالہ انتخابی مہم میں بھی نہیں کر پائے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ابتدائی پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے امریکی خود کو غیر محفوظ اور غیر مرئی مخلوق سمجھنے لگے ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے سے لے کر سات ممالک کے شہریوں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کے دروازے کھول دئیے۔ انھوں نے رہی سہی کسر اپنے ٹویٹر پیغامات اور مختلف انٹرویوزسے پوری کردی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاست کو بھی کارروبار سمجھ کر چلانا شروع کر دیا ہے۔ بلاشبہ وہ ایک زیرک بزنس مین ہیں مگر سیاست میں صدر بننے کے باوجود وہ کچی گولیاں ہی کھیل رہے ہیں۔ وہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے امریکی اقدار کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ امریکا کو "لینڈ آف امیگرنٹس" کہا جاتا ہے مگر ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں سے امریکیوں میں خوف بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا کو محفوظ بنانے کے چکر میں ٹرمپ بھی وہ غلطیاں کررہے ہیں جو ایک اور ری پبلیکن جماعت کے منتخب امریکی صدر جارج بش نے کی تھیں۔ بش نے عراق میں امریکی فوجیوں کو طویل عرصے تک رکھ کر جو حماقت کی، اس کا خمیازہ امریکا آج بھی بھگت رہا ہے۔ امریکا میں بسنے والی مختلف قومیں خود کو کبھی اتنا لاچار نہیں سمجھتی تھیں جتنا ٹرمپ کے دور میں پریشان ہیں۔
انھیں اندازہ ہے کہ یہ صدر انھیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ ٹرمپ سے پہلے بھی کئی طرم خان آئے اور خوب گرج برس کر حکومت کی مگر سامراجی توڑ پھوڑ نے معاشرہ اور سیاست کے درمیان ایک طویل خلیج پیدا کردی۔ امریکا کے امرا میں شمار کئے جانے والے ٹرمپ کو امریکا کے زمینی حقائق کا یا تو واقعی علم نہیں یا وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں سمجھ رہے کہ آج وہ جو بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہیں، اس کے نتائج آنے والے دورمیں امریکیوں کو بھگتنا ہونگے۔
ٹرمپ میں ایک کامیاب کارروباری شخصیت والی خصوصیات تو ہونگی مگر ان میں ایک بدترین سیاست دان والی صلاحیت بھی ہے۔ انھیں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی خود لتاڑا جارہا ہے۔ اگر ٹرمپ نے نوشتہ دیوار نہ پڑھا تو امریکی انصاف کا نظام اپنے ہی صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے میں ذرا بھی نہیں دریغ کرے گا۔
ایک پڑھا لکھا سمجھ دار امریکی کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا مستقبل مشکل میں پڑے۔ عوامی حمایت میں کمی اور مقبولیت کے نچلا گراف امریکی صدر کے لیے کئی مشکلات کا موجب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ ٹرمپ کارڈ نہ بنیں بلکہ مثبت سوچ اور بدمعاشی کے عنصر سے بالاتر ہوکر امریکا کو متحد کریں تاکہ ری پبلیکن جماعت بھی سر اٹھا کر کہہ سکے کہ جارج بش کے بعد اس جماعت سے کوئی معقول صدر نے ملک کی بہتر انداز میں چلایا ہے۔ اگلے چھ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے بقایا برسوں کا واضح طور پر پتہ لگا دیں گے کہ امریکیوں نے سب سے زیادہ ووٹ لینے والی ہیلری کا انتخاب نہ کرکے غلطی کی تھی یا ٹرمپ کارڈ چار سال تک ملک کو ٹھیک چلاسکتا ہے