اسلام آباد : جے آئی ٹی تحقیقات کے بعد پاناما لیکس کیس کی سماعت آج دوسرے روز بھی جاری رہے گی،آج وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث دلائل دیں گے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پہلے ہی روز پٹیشنرز نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، جب کہ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں ریکارڈ بیانات کی حیثیت پولیس افسر کی تفتیش سے زیادہ نہیں، عدالت کیلئے لازم نہیں کہ مشترکا ٹیم کی رپورٹ تسلیم کرے۔
سپریم کورٹ آف پاکساتن میں گزشتہ روز ہونے والی سماعت پر تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور شیخ رشید کا جے آئی ٹی رپورٹ پر بھرپور اعتماد اور وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ سامنے آیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں ریکارڈ بیانات کی حیثیت پولیس افسر کی تفتیش سے زیادہ نہیں، جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ عدالت کیلئے لازم نہیں کہ مشترکا ٹیم کی رپورٹ کو تسلیم کرے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری سرمایہ کاری، خطوط اور سپریڈ شیٹ کو افسانہ قرار دیا ہے۔ نواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین نکلے، اقامے اور تنخواہ کی دستاویز بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے ریکارڈ بیان کا جائزہ ضابطہ فوجداری کے تحت لیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا نواز شریف نے حسین نواز کو سعودی بینک سے سات لاکھ پچاس ہزار رال ٹرانفسر کیے۔ اس حوالے سے مشترکہ ٹیم کی دستاویز تصدیق شدہ نہیں؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ کیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دستاویز قانونی طریقے سے حاصل کیں اور قانون کی نظر میں قابل قبول بھی ہیں یا نہیں، اگر ضرورت پڑی تو رپورٹ کے والیم 10 کو بھی کھول دیں گے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے مزید کہا کہ اگر مریم نواز بینیفیشل مالک ثابت ہوئی تو اس کے نتائج مریم نواز پر ہوں گے، نواز شریف پر اس کا اثر اس وقت پڑے گا جب یہ ثابت ہو گا کہ مریم والد کے زیر کفالت ہیں۔ شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مشترکہ ٹیم کی بیشتر دستاویز قانون کی نظر میں قابل قبول نہیں، جے آئی ٹی نے دستاویز پر گواہان کا موقف نہیں لیا۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مشترکہ ٹیم تحقیقات کر رہی تھی ٹرائل نہیں۔ سماء