عید کے بعد آنا
گھر سے فون آیا کہ گھر والوں کے لئے عید کے کپڑے لے کر آنا، کبھی بھی کپڑے خریدے نہیں کہ میں گھر والوں کے لئے شاپنگ کر سکوں، چارو ناچار اپنی پھپھو جی سے رابطہ کیا ، انہوں نے نادیہ آپی کو میری معاونت کے لئے بھجوا دیا، اب خواتین کے ہمراہ لاہور کے بڑے بازاروں میں خریداری کرنا ایک ایسی آزمائش ہے کہ جس سے بچنے کے لئے سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے تمام مفکرین تاحال کوئی حل نہیں نکال سکے ہیں، لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں مڈل کلاس افراد کے لئے مون مارکیٹ کے نام سے ایک بازار ہے جہاں قدرے ارزاں نرخوں پر خواتین کے ملبوسات مل جاتے ہیں۔
قصہ مختصر نادیہ آپی کی قیادت میں خریداری کا مرحلہ شروع کیا، افطاری سے دو گھنٹے پہلے خریداری کا آغاز کیا مگر مغرب کی اذانیں ہوگئیں ایک سوٹ بھی پسند نہیں آیا، جو سوٹ مجھے پسند آتا تو آپی کی جانب سے مسترد کردیا جاتا، جو انہیں اچھا لگتا مجھے نہ بہاتا اور جو دونوں کو اچھا لگتا اس کا بھاؤ دکاندار ایسا بتاتا کہ چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ شروع ہو جاتا۔ دکاندار ایسے قصائیوں کی مانند دکھائی دیتے جو بقر عید کے موقع پر چھریاں تیز کئے ہوتے ہیں اور ایک دن میں درجنوں جانور ذبح کرنے کے عالمی ریکارڈ بنانے کا عزم کئے ہوتے ہیں۔
دو گھنٹے دکانداروں کی بھانت بھانت کی باتیں سنتے سنتے اذان مغرب کا وقت ہوگیا، فوری طور پر پانی کا ایک گھونٹ پی کر روزہ افطار کیا اور بھاگم بھاگ نزدیکی ہوٹل پر پہنچے ، جبکہ اسی دوران موسلا دھار بارش بھی شروع ہوگئی۔خیر رم جھم میں لاہوری کا کھانا تناول کیا، کھانا اصلی چکن کا تھا، کھانے کے بعد دوبارہ آپریشن عید خریداری شروع کیا، اب کی بار میں نے تما م حقوق نازیہ آپی کو دے دیے تاکہ بآسانی خریداری کا مرحلہ مکمل کیا جا سکے، اب میں کوئی رائے نہیں دے سکتا تھا، بس جو سوٹ نادیہ آپی پسند کرتیں وہیں مجھے لینا پڑنے تھے، خیرجب سوٹ خریداری کا مرحلہ آیا تو 2 ہزار والا سوٹ 45 سو روپے میں مل رہا تھا، جبکہ 1 ہزار والا سوٹ 3 ہزار کے نرخ پر بک رہا تھا، لاکھ بحث کریں مجال ہے کہ دکاندار کے کانوں پر جوں تک رینگتی،ہر دکاندار کا ایک ہی رٹا رٹایا جملہ دہراتا،"سوٹ مہنگے ہی تو جناب تشریف لے جائیے۔۔ عید کے بعد ہی آئیے گا" ۔
عید کے بعد کیسے آیا جائے، مہنگائی کا جو طوفان بدتمیزی کپڑے کی دکانوں پر ہےاس کے ہوتے ہوئے کسی کے بس میں نہیں وہ کچھ خرید سکے،بازاروں میں لوگوں کا رش تو ہے مگر لوگ چیزوں کے دام ہی پوچھ کر ہی کانوں کا ہاتھ لگاتے ہوئے بھاگنے میں عافیت جانتے ہیں۔چیزیں اتنی مہنگی ہیں کہ اچھے خاصے امیر لوگ بھی کچھ نہیں خرید سکتے۔عید پر خریداری غریبوں کے کیا امیروں کے بس کی بات بھی نہیں رہی کیونکہ قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکہ میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہےجبکہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے ۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ رمضان المبارک اور عید کے مواقع پر گراں فروشی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس دور کی بات اچھے خاصے امیر گھرانوں کے افراد کی قوت خریدبھی عید اور رمضان المبارک میں جواب دے دیتی ہے، میری اپنی ہی مثال لے لیں 5 لیڈیز سوٹ کیا خریدے آدھی سے زیادہ تنخواہ خرچ ہوگئی جبکہ نادیہ آپی نے اپنے بیٹے کے لئے 4ڈریسز لیے مگر یقین جانیے دکاندار سے 5 مرتبہ بحث کی ہر بار دکاندار نے انکار کیا بلآخر دکاندار کامیاب ہوا ریٹ میں کمی بیشی کے بغیر ہی اس نے سوٹ خریدنے پر مجبور کیا۔
سوچنے کا امر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر گراں فروشی کو کنٹرول کیا جا رہا ہے اور نہ ہی دکانداروں کو خوف خدا، مرتو بیچارا غریب ہی ہے اور اس تسلی سے بھی جی رہا ہے کہ "عید کے بعد تو کپڑے سستے ہو ہی جائیں گے" ۔