بڑھاپا میرے آگے

PAKISTAN-BRITAIN-WWI-CENTENARY

آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائلوں نے جنم لے رکھا ہے۔ ریاست میں موجود تقریباً ہر شہری پریشانی و اذیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ جس کی اصل وجہ کوئی زیادہ بڑی نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جُز جسے اﷲ رب العزت نے ریاست کے سہارے بہت آسان فرمایا تھا۔ آج کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جی ہاں  دو وقت کی روٹی کا حصول جو کہ موجودہ حالات میں اِس قدر مشکل ہوگیا ہے کہ جسے دیکھیں اپنی تمام ذمہ داریوں کو اپنے تما م مقاصد زندگانی کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے لئے دو وقت کی روٹی کے حصول میں مصروف نظر آتا ہے۔ نوجوانوں کو دیکھ لیجئے بے روزگاری کے سبب مالی حالات میں گرفتار اپنی جوانی پرروتا ہے اور اپنے آپے کوستا رہتا ہے کہ آخر اُس نے جوانی کی دہلیز پرقدم ہی کیوں رکھا۔ اِسی طرح اپنی جوانی کے قرب ناک دور سے گزر کرجب ایک بوڑھا ضعیف العمری کی آغوش میں بے سہارہ بے یارو مددگار اپنی لچارگی کو دیکھتا ہے تو دل بے اختیار کہہ اُٹھتاہے کہ یا اﷲ تونے بڑھاپے کی زندگی کو اتنا لاچار کیوں بناڈالا۔ حالانکہ دینِ اسلام نے انسان کے اِن ارتقاؤں کی ہر طرح سے رہنمائی فرمائی ہے اور پیدائشِ اذاں سے لیکر دارِ فغاں تک کوئی لمحہ بھی قدرت کی مہربانیوں سے خالی نہیں چھوڑا ہے۔

ہم ایک مسلم ریاست کے شہری ہیں ایک ایسی مسلم ریاست جسے اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں جانے کتنے ضیعف العمر لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا ایک بامقصد حصہ گزار کر بڑھاپے کی لاچارگیوں میں گرفتار اپنی ارتقاء کی باقی ماندہ چند سانسوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پرمجبور ہیں اور ہمارا معاشرہ ہے کہ اُنھیں معاشی بوجھ کے تصور کرتا ہے۔ اگر وہ کسی ادارے سے منسلک ہوکر پنشن نہیں لے پارہے تو کیا وہ جینا چھوڑ دیں ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایسے لوگوں کو معاشی و سماجی تحفظ فراہم کریں اور اگر کوئی کسی ادارے سے منسلک ہے بھی تو اُنھیں اداروں کا محتاج بنادیا جاتا ہے۔ جو کہ اپنی بچی کچی زندگی کی اَدھ مری سانسیں اِن اداروں کے طواف میں پوری کردیتے ہیں۔ جانے ایسے کتنے ادارے ہیں جو خود کو ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کروانا اپنی توہین سمجھتے ہیں جو مزدور کی کم از کم مقرر کی گئی تنخواہ دینا اپنی جیب پر بوجھ تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اُن سے کمائی ہوئی بے شمار دولت اپنا حق سمجھتے ہیں۔

how-poor-person-speak-fluent-eng

رزق اُگلا ہے زمیں نے تو سبھی کا لیکن پھر سرِراہ غربت کا تماشا کیوں ہے؟ روشنی جس کے پسینے سے جنم لیتی ہے وہ مزدوراُجالے کو ترستا کیوں ہے؟

ہماری حکومتِ وقت سے درخواست ہے کہ اگر وہ واقعی اسلام کے خیر خواہ ہیں پاکستان اور اُس کی عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو پھر ریاست میں موجود رعایا کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں، ضعیف العمر لوگوں کے لئے ایسا نظام مرتب کریں جس سے اُنھیں معاشی و سماجی تحفط فراہم کیا جاسکے۔ پاکستان میں موجود پاکستانی شہریت کے حامل ضعیف العمرچاہے وہ کسی ادارے سے منسلک ہوں یا نہ ہوں اُنھیں ماہانہ پنشن کا اجراء اور اُن کے تمام علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ دیگر یورپی ممالک میں ہوتا آیاہے۔ یاد رکھیں یہ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے جس نے بار بار قرآنِ مجید میں انسان کو مضبوط معاشی و سماجی نظام نافذ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اب یہ تمام مسلم حکمرانوں پر لازم ہے اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا انسانی معاشرہ قائم کرنے میں مالی و اخلاقی طور پر حکومت کا ساتھ دیں جس میں انسان کے تمام حقوق کی پاسداری کو ممکن بنایا جاسکے، جہاں جوان سے لیکر ضعیف العمر تک کو معاشی و سماجی تحفظ فراہم کیا جاسکے، جہاں علمیت پسندی کا رجحان ہو، جہاں اعلیٰ تعلیم و تربیت عام ہو جدید علوم سے لوگ آراستہ ہوں، جہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ امن وسلامتی سے رہ سکیں۔ یقین جانیئے اِس طرح آپ انسانیت کی بھی خدمت کرپائیں گے اور اسلام کی بھی۔

ISLAM

Tabool ads will show in this div