خدا کیلئے مجھے اینکر بنادیں۔!۔
تحریر : توقیر چغتائی
کسی زمانے میں ٹی وی کے اینکر کو میزبان کہتے تھے جس کیلئے پڑھا لکھا ہونا پہلی شرط تھی، آواز اور تلفظ کے ساتھ الفاظ کو ادا کرنے کے ڈھنگ سے بھی آشنائی ضروری تھی اور خوب صورتی کا معیار اُس رکھ رکھاؤ سے جھلکتا تھا جو ہر گھر کی خشت اول میں پنہاں ہوا کرتا تھا۔
وقت بدلا اور میزبان کی ذمے داریاں اینکر نے سنبھال لیں، جس کیلئے خوب صورت ہونا پہلی شرط ٹھہری، اگر اس خوبصورتی میں کوئی کمی نظر آئی تو جلد پر استر کاری کیلئے آرائش کا فوری انتظام کیا جانے لگا اور اس کو ’میک اپ‘ کا نام دیا گیا، جس طرح میزبان کا نام راتوں رات اردو کے بجائے انگریزی میں تبدیل ہوا، بالکل اُسی پھرتی سے میزبان، یعنی اینکر نے بھی اردو کے بہت سارے الفاظ کو انگریزی کا روپ دے کر احسان کا بدلہ دینے کی بھرپور کوشش کی اور کمال مہارت کے ساتھ وقفے کو ’بریک‘ ناظرین کو ’ویورز‘ دوستوں کو ’فرینڈز‘ قسط کو ’ایپی سوڈ‘ بات چیت کو ’ٹاک شو‘ نقطۂ نظر کو ’پوائنٹ آف ویو‘ جرائم کو ’کرائم‘ اور فیصد کو ’پرسینٹ‘ بنا دیا۔
پڑھا لکھا ہونے کی شرط صحافت کے رہنما اصولوں کے بجائے وہ ڈگری بن گئی جسے حاصل کرنے کیلئے کتاب کے بجائے انٹرنیٹ نے مادر علمی کا روپ دھار لیا، ذوقِ تقریر و تحریر نے جب انگڑائی لی تو ایسے الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوا جنہیں لغت نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا، البتہ سامعین، قارئین اور ناظرین کو بے بس قیدیوں کی طرح سب کچھ سننا پڑا۔
تلفظ کے ساتھ وہ ظلم ہوا کہ الفاظ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور تذکیر و تانیث کی وہ مٹی اڑی کہ جملوں کی پگڑیاں شرمندگی کی دھول سے اٹ گئیں، حصول علم کے بعد برقی صحافت کے شعبے میں قدم رکھنا ہر دوسرے طالب علم کا خواب اور ’اینکر‘ کے مقام تک پہنچنا اُس کا پہلا ہدف بن گیا، لیکن اس بات کا علم نہ ہوا کہ برقی صحافت کی چھت پر پہنچنے کیلئے قلم اور کاغذ کی سیڑھی بھی درکار ہوتی ہے جو سوائے اخبار کے کسی اور مقام سے نہیں ملتی۔
خبر بنانے، سنانے اور دکھانے کے کچھ آداب اور اصول ہوتے ہیں جو عمر گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور صحافی کو اُس کی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی کرتے ہیں، اسکرین پر لکھی ہوئی دانش مندی اور دانش وری میں اگر میزبان کا 20 فیصد علم بھی شامل ہو تو کام چل جاتا ہے، لیکن کسی فنی خرابی کی وجہ سے سامنے چلنے والی اسکرین یہ دانش مندی تقسیم کرنے سے انکار کردے تو میزبان کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
ان سب کے باوجود ہر نوجوان اس بات پر بضد ہوتا ہے کہ اُسے صحافت کی ابتداء نہ تو کسی اخبار سے کرنا ہے نہ ہی کسی ماہ نامے، ہفت روزے یا سہ ماہی رسالے کے دروازے پر دستک دینی ہے بلکہ راتوں رات ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہو کر اینکر کے مقام تک پہنچنا ہے۔