بچّے قدرتی پھلوں اورنعمتوں سے دورکیوں؟

تحریر: توقیر چغتائی
شہرو ں میں رہنے والے بّچے اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ وہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بچّوں سے زیادہ سمجھ دار اوربا خبر ہیں، لیکن یہی بچّے جب دیہاتی علاقوں میں جاتے ہیں تو مختلف جانور ، پرندے ، درخت، پہاڑ ، دریا اور پھل دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ انہیں زندگی میں پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ جگمگاتی سڑکوں، بڑے بڑے بازاروں،نت نئی گاڑیوں اور رنگے برنگے کپڑوں میں ملبوس لاکھوں انسانوں کے علاوہ بھی دنیا میں دیکھنے اور اُس سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہت کچھ رکھا ہے۔
دیہی علاقوں میں بہنے والے پانی کے قدرتی چشموں کی تاثیر سے تو ہر کوئی واقف ہے ، مگر یہاں پر اگنے والی طرح طرح کی جڑی بوٹیوں ، قدرتی پھلوں اور اُن کی خوبیوں سے بہت کم افراد واقف ہوتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والوں کو تو چھوڑیے اب تو دیہی علاقوں میں رہنے والے بھی ان قدرتی نعمتوں سے روز بروز دور اور اس کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماریوں کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔بیر، شہتوت،لسہوڑا،انجیر،گوندنی،رس بھری،فالسہ، لوکاٹ اور جامن ایسے پھل ہیں جو ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں پائے جاتے ہیں، مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف سرد یا گرم علاقوں کی پیداوار ہیں۔
اس کے باوجود ہر علاقے میں ایسے قدرتی پھل موجود ہوتے ہیں جو بغیر کسی دیکھ بھال اور باغبانی کے نہ صرف کثرت سے اگتے ہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے والے بہت ساری بیماریوں سے بھی دور رہتے ہیں۔ سیب، انگور،انار، گرما،آم،انناس،مالٹا اور کیلے جیسے پھلوں کا شمار تو مہنگے پھلوں میں ہوتا ہے اور باقاعدہ کاشت کے بعد انہیں نہ صرف ملک بھر بلکہ بیرون ملک مہنگے داموں بیچا جاتا ہے، مگر جنگلی اور قدرتی پھلوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی ۔
ایسے ہی پھلوں میں بیر بھی ایک قدیم قدرتی پھل ہے جو ملک کے ہر حصّے میں آسانی سے مل جاتا ہے۔بیر کی دو اقسام ہیں ۔ بڑے درخت کے ساتھ لگنے والا اور جھاڑیوں کے ساتھ نظر آنے والابیر۔یونانی علاج میں بیر کو خاص اہمیت حاصل ہے اور دیہی علاقوں کے غریب بچے کسی زمانے میں اس کے دیوانے ہوتے تھے، مگر اب وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔
یہی حال شہتوت کا ہے جس کے بہت سارے طبی فوائد بھی ہیں اور یہ ایک لذیذ پھل بھی ہے جو دو اقسام میں کثرت سے دستیاب ہوتا ہے۔افسوس کہ اب بچّے شہتوت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور اس کے بجائے مختلف کمپنیوں کی کھٹی میٹھی گولیوں کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بچے شہر کے ہوں یا گاؤں کے اب پھل کھانے کے بجائے غیر میعاری مشروبات اور دوسرے درجے کی سستی مٹھائیوں اور نمکین چیزوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اُن کے والدین پر عائد ہوتی ہے جو اپنے گھر کے فریج کو آئس کریم،مشروبات اور مٹھائیوں سے تو ہر وقت بھرا رکھتے ہیں ، مگر اس میں پھلوں کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑتے ہیں۔
قدرتی پھل ہوں یا باغبانی کے ذریعے حاصل کیے گئے پھل، بچوں کو ان کی اہمیت و افادیت سے واقف کرنے کے بعد ہم نہ صرف ان کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں، بلکہ جسمانی صحت اور روز مرہ زندگی میں بھی بہت ساری تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔