راول پنڈی سے ساہی وال تک
توقیر چغتائی:
ہر گاؤں دیہات اور شہر کی ایک تاریخ ہوتی ہے، اُسے آباد کرنے والا ایک گروہ ہوتا ہے اور یہی گروہ اُس کی پہچان بنتا ہے۔ سنسکرت میں راول کا لفظ ، بہادر، شہزادے، سورما اور سردار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں نے پڑوسی ملک کے ریڈیو سے کئی بار گجراں والا کا نام گوجران والا سنا ہے، جس میں اُن کا شاید کوئی قصور نہیں بلکہ قصور ان پاکستانی بھائیوں کا ہے جو اپنے خط پر گوجراں والا کے بجائے گوجرانوالہ لکھتے ہیں۔ اس شہر کے نام میں دو غلطیاں پوشیدہ ہیں۔ ایک تو گوجراں کو گجران بنادیا گیا اور دوسرا ’’والا ‘‘کو’’ والہ‘‘ لکھ دیا گیا جو درست نہیں۔ اس لیے کہ فارسی اور عربی کے الفاظ کے علاوہ مقامی زبانوں کے آخر میں الف ہی استعمال کیا جاتا ہے ’’ ہ ‘‘ نہیں، ہندی کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں ’’ ا ‘‘ کے بجائے ’’ہ‘‘استعمال ہوتا ہے لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں۔

ساہی وال پاکستان کا نہ صرف بہترین زرعی علاقہ ہے بلکہ اس کے قدموں میں سات ہزار سال پرانی تہذیب ’’ ہڑپا‘‘ کے نام سے بکھری ہوئی ہے جو ہمیں تاریخی اور ثقافتی میدان میں ساری دنیا سے متمول ومنفرد بناتی ہے۔ یہاں بھی ایک بہادر قوم آباد ہے جسے ’’ساہی ‘‘ کے نام اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں پہچانا جاتا ہے ۔انگریزوں نے اپنے دور میں ایک جرنیل ’’ مٹگمری ‘‘ کے نام پر اس شہر کا نام مٹگمری رکھا، مگر آزادی کے بعد اس کا نام ساہی وال کر دیا گیا۔
ساہی وال کو ساہیوال لکھا جاتا ہے جو درست نہیں۔ حیدر آباد سے متصل شہر ’’ جام شورو‘‘ آج کل سندھ یونی ورسٹی جام شور کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس کا نام لکھتے وقت بھی اس سے راول پنڈی اور ساہی وال جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے ، مگر سندھی اخبارات اور رسائل ایسا نہیں کرتے ۔’’ شورو ‘‘ بھی ایک قوم ہے اور ’’ جام ‘‘ سندھی زبان میں بڑے ، بزرگ ، اور با عزت شخص کو کہا جاتا ہے ۔ اس شہر کا نام بھی جامشور لکھنا ہر گز درست نہیں۔
درج بالا شہروں کی طرح پاکستان کے کئی ایسے شہر ہیں جن کا نام غلط لکھا جاتا ہے جیسے بہاول نگر،بہاول پور،میاں والی،ملک وال،چک وال ،بھل وال،اٹھ مقام وغیرہ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں، پولیس اسٹیشنوں، ریلوے اسٹیشنوں اور تعلیمی اداروں کی دستاویزات میں بھی ان شہروں کے نام غلط لکھے جاتے ہیں ۔ اگر ہم الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا کی بات کریں گے تو بات بہت دور تک جائے گی لہذا چپ ہی بھلی۔ سماء