سندھ کی جنگلی حیات اورمعدومی کےخطرات
جنگلی حیات قدرت کے حسن کا مظہر ہیں چنانچہ ان کا تحفظ انسانی معاشرے کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ موضوع بہت سوں کویقیناًغیرموزوں لگ رہاہوگا کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب کوئی ’انسانی حیات‘ ہی کا پرسانِ نہ ہو تو ’جنگلی حیات‘ کی خبر گیری تو ٹہری دور کی بات۔ لیکن کیا کریں کہ روزانہ ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ تھر میں اتنے سو مور مر گئے، دریائے سندھ میں اتنی ڈولفنز مردہ پائی گئیں، نایاب پرندوں اور ہرنوں کو شکار کر لیا گیا وغیرہ ۔ اس طرف نہ ذمہ داران کی توجہ جاتی ہے اور نہ کوئی ٹھوس اقدام دیکھا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں اس کام کے لئے سرکاری ادارے قائم ہیں۔ دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے سندھ ایک ہے۔ ماہرین جنگلی حیات کے مطابق سندھ سے ایسے جانوروں کے بھی ڈھانچےفوسلز ملے ہیں جو آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن ہزاروں سال پہلے یہاں پائے جاتے تھے۔ ایسے جانوروں میں شیر،گینڈا،ہاتھی اور دیگرجنگلی جانور شامل ہیں۔ماضی میں ان جانوروں کی معدومی کی وجوہات کچھ اور تھی جبکہ آج کل کچھ اور ہیں۔

موجودہ دور میں بہت سے ایسے جانور ہیں جو تیزی سے ناپید ہورہے ہیں اور ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ سندھ میں جنگلی گدھا، نیل گائے، سیاہ تیتر، ہرن، انڈس ڈولفن، مور اور سفیدپشت والے گدھ معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
سندھ کی جنگلی حیات کا تحفظ: ماضی کے تناظر میں
سندھ میں جنگلی حیات کے تحفظ کا باقاعدہ آغاز انیس سو بہتر میں ہوا جب سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے ذریعے جنگلی حیات کو تحفظ دیا گیااورغیر قانونی شکار کو قابل تعزیر جرم قراردیا گیا اور دو سال بعد کھیر تھر نیشنل پارک قائم کیا گیا۔ یہ پارک کراچی اور ضلع جامشورو کے درمیان تین ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہےجوکہ جنگلی حیات کےتحفظ کےلیےقدرتی ماحول فراہم کرتاہے۔پارک پہاڑوں، میدانوں،جھیل،ہموار اورناہموار زمین کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ہنگول نیشنل پارک کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک ہے۔ یہاں جنگلی حیات کی دو تحفظ گاہیں اور چار شکارگاہیں بھی موجود ہیں۔ کیرتھرنیشنل پارک کےقیام سے قبل سندھ آئی بیکس کی تعداد30 سے 35تھی جبکہ آج ان کی تعداد 18سے19ہزار ہے۔ پارک میں دو ہزار کے قریب ہرن موجود ہیں۔
کیر تھر نیشنل پارک کے علاوہ سندھ میں ہالیجی ، کینجھر جھیل ، کوہستان اور رن آف کچھ کے مقام پر وائلڈ لائف سینکچوریز (جنگلی حیات کی تحفظ گاہیں ) قائم کی گئی ہیں جہاں جنگلی حیات کی افزائش کی جارہی ہے یا انہیں قدرتی ماحول فراہم کیا جارہاہے۔
غیرقانونی شکار: سندھ میں بھی جنگلی حیات کو وہ ہی خطرات لاحق ہیں جو دنیا کے دیگر حصوں میں لاحق ہوتے ہیں یعنی غیر قانونی شکار۔ تھر صحرا میں مور اورہرن کوغیر قانونی شکار کے باعث سندھ وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ کو چیلنج کا سامناہے۔جانوروں کی خرید وفروخت میں بہت پیسہ ہے اس لیے جہاں نایاب پرندے موجود ہیں وہاں لوگ نئی نئی ترکیبوں اور گھات کے نئے نئے طریقوں سے جانوروں کو پکڑتے ہیں جبکہ سندھ وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ کے وسائل اور افرادی قوت کم ہے جس کے باعث یہ محکمہ سو فیصد غیر قانونی شکار روکنے میں کامیاب نہیں ہے۔
دیگر وجوہات
اس کےعلاوہ چھوٹے جانوروں خاص طورپر پرندے، فصلوں پر کیڑے مار دواؤں کی چھڑکاؤ سے مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پے درپے سیلاب بھی جنگلی حیات کے لیے مستقل خطرہ بنے رہتے ہیں۔
فضائی آلودگی اور شور کی آلودگی بھی جنگلی حیات کی معدومی کا ایک بڑا سبب ہے۔ آبی حیات کو آلودگی کے باعث خطرات لاحق ہیں چونکہ سمندر میں شہروں کے گٹر اور فیکٹریوں کے فضلات بڑے پیمانے پر بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے گرایا جارہا ہے جس سے آبی حیات شدید خطرات کاشکارہیں۔