زرخیزمٹی،بنجرنظام
یہ آج کا نہیں ، سالہاسال پرانا مسئلہ ہے ۔ گندم کے کھیت جب سنہری خوشوں کے ساتھ لہلہاتے ہیں تو کسان خوشی کے ساتھ ساتھ فکرمندی کا شکار بھی ہوتا ہے ۔ فکر اس بات کی کہ فصل کی پوری قیمت کیسے ملے گی ؟ کون خریدے گا ؟ باردانہ کیسے حاصل ہوگا ؟ اس موقع پر حکومتیں وعدے کرتی ہیں ، دعوے کرتی ہیں اور کسانوں کی خوشحال کا مژدہ سناتی ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی ربیع سیزن کی اہم فصل گندم تیار ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں 66 لاکھ 77 ہزار ہیکٹرز رقبہ پر جبکہ سندھ میں 11 لاکھ 57 ہزار ہیکٹرز رقبہ پر گندم کاشت کی گئی ہے ۔ ملک میں اس وقت مجموعی پیداوار 26 ملین ٹن یعنی 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن رہنے کی توقع ہے جس میں بیشتر حصہ پنجاب کا ہے جہاں پیداواری ہدف 20 ملین ٹن کے قریب ہے ۔ اسی طرح سندھ میں 3.5 ملین ٹن کا ہدف رکھا گیا ۔
پاکستانی عوام کی خوراک کا بیشترحصہ گندم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ ایک انتہائی اہم فصل ہے ۔ ماضی میں جن برسوں میں گندم کی قلت ہوئی ان میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اب بظاہر ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے ۔ خدشہ ہے تو صرف کسان کو پورا معاوضہ نہ ملنے کا ہے ۔ اس سال گندم کی امدادی قیمت 1300 روپے فی من پر برقرار رکھی گئی ہے لیکن چند ہی خوش قسمت کسان ہوں گے جو اس قیمت پر اپنی فصل فروخت کرپائیں گے ۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ زیادہ تر کاشتکار آڑھتی اور مڈل مین کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوتے ہیں اور مقررہ قیمت سے بہت کم نرخوں پر اپنی محنت کو قربان کردیتے ہیں ۔
گندم کےلیے حکومت سے باردانہ ( بوری) کا حصول ہمیشہ سے ہی کسانوں کا مسئلہ رہا ہے ۔ پنجاب میں گزشتہ مسلسل 8 سال سے خادم پنجاب انگلی لہرا کر کسانوں کی فلاح کے انقلابی اقدامات کا اعلان کررہے ہیں مگر کسان پٹوار کے نظام کے ہاتھوں یرغمال ہی ہے ۔ اسے نیت کی خرابی کہیے یا پھر اصلاح احوال میں نااہلی ، جو بھی ہے دونوں صورتوں میں ہمارے محترم خادم اعلیٰ پنجاب اس معاملے میں سزا وار ہیں ۔ کسان اب یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ نجانے وہ کون سی صدی ہوگی جب میرٹ پر انہیں باردانہ بآسانی دستیاب ہوگا اور ہرکسی کو اس کی فصل کا پورا معاوضہ ملے گا ۔
گندم کے معاملے میں صرف فصل کی فروخت ہی واحد مسئلہ نہیں بلکہ اس کی تیاری کےلیے پانی کی دستیابی ، کھاد ، بیج کا حصول اور موثر زرعی ادویات تک کسانوں کی رسائی نہ ہونا بھی کسانوں کےلیے بڑی رکاوٹیں ہیں جن پر حکومتوں نے کم ہی توجہ دی ہے ۔ کسانوں کے یہ مسائل حل کردئیے جائیں اور انہیں پورا معاوضہ دے دیا جائے تو ملکی معیشت میں نہ صرف بہتری یقینی ہے بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں ہم اپنی گندم فروخت کرکے تجارتی خسارہ بھی کم کرسکتے ہیں جو بیرونی قرضوں پر ہمارا انحصار کم کرے گا ۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان پر حکومت کرنے والے اپنے بیرونی اکاؤنٹس کی بجائے ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں ۔
اگر بین الاقوامی انڈکس پرنظردوڑائی جائے تو گندم کے بڑے پیداواری ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، جو کہ ہمارے قدرتی وسائل کے لحاظ سے بالکل بھی قابل ستائش نہیں ۔ فرانس جیسا پاکستان سے نسبتاً ٹھنڈا اور اور بلحاظ رقبه چھوٹا ملک بھی گندم کی پیداوار میں پاکستان سے آگے ہے ۔ پاکستان میں فی ایکڑ اوسطاً پیداوار 28 من ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک 100 من تک بھی فی ایکڑ پیدوار حاصل کررہے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی کسانوں کو معیاری بیج، متوازن اور بروقت کھاد اور بہترین پیداواری ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور یہ سب اقدامات زمین کی ساخت اور علاقائی ضروریات کے مطابق کیے جائیں تو پاکستان گندم کی پیداوارمیں بہت آگے جا سکتا ہے ۔
،بقول حکیم الامت
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی