اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور دفاع
کسی نے شاید انہیں وقتوں کیلئے صیحیح کہا تھا کہ "انسان کو بقا کیلئے اپنے پاس خوراک رکھنےسےکہیں زیادہ تلوار رکھنا ضروری ہے" اور یہ ہی وجہ ہے کہ عہد حاضر میں ہر چھوٹا بڑا ملک اپنے دفاع کو زیادہ سے زیادہ مستحکم اور مضبوط بنانے کی تقع دو میں لگا رہتا ہے۔ جہاں دنیا میں جدید سے جدید آلات کی خریدو فروخت دفاع سے مشروط ہے وہی دنیا کی مہنگی ترین ٹیکنالوجی اسٹیلتھ کے حامل ہیلیز ، طیارے،میزائل، ڈرونز، ریڈار، الات اور دیگر ساز و سامان بھی ہر ملک کی خواہش ہیں۔
اسٹیلتھ ٹیکنالوجی دفاع کیلئے کتنی ساز گار اور اہم ہے، اسے جاننے سے قبل ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ہے کیا ؟؟، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کو ہم ایل او ٹیکنالوجی یعنیٰ لو آبزرورایبل ٹیکنالوجی بھی کہتے ہیں۔۔ یہ فوجی اور دفاعی نظام کی ایک ایسی جزویت ہے جو ملڑی ایئر کرافٹ یعنیٰ طیارے، جہاز، ہیلی کاپٹر، آبدوز، میزائل، سیٹلائیٹ اہل کاروں کو ایسی سہولت اور تیکنک فراہم کرتی ہے جس سے آپ دشمن کے ریڈار، انفرا ریڈ، سونر اور دیگر سراغ لگانے والے آلات پر بہت مشکل یا اکثر حالات میں بالکل نموار نہیں ہوپاتے اور دشمن کے جانے بغیر اپنا مشن اور کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔


اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی خاص بات یہ ہے کہ دشمن کے ریڈار سے خارج ہونے والے سگنل اس ٹیکنالوجی کے حامل ہیلی کاپٹر ، طیارے، میزائل، ڈٖرونز یا کسی دوسری چیز سے ٹکرا کر کسی اور طرف مڑ جاتے ہیں، اور واپس اس جگہ نہیں جاتے جہاں ریڈار نصب ہے۔ اس سلسلے میں ایسا میٹریل بھی استعمال ہوتا ہے جو ریڈار کے زیادہ سے زیادہ سگنل جذب کرلے۔ اسٹیلتھ طیارے میں انجن سے اٹھنے والی گرمائش چھپانے کے لیے اسے ٹھنڈا رکھنے کا نظام لگایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے انفراریڈ شعاعیں بھی خارج نہیں ہوتیں۔ اس ٹیکنالوجی کے بنے طیارے کو دیکھنا بھی کٹھن مرحلہ ہے کہ وہ مکمل طور پر سیاہ ہوتا ہے۔ اسے عموماً رات کو اڑایا جاتا ہے۔آواز کی لہروں سے بھی ان خصوصی طیاروں کو شناخت کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ وہ سپرسونک نہیں ہوتے۔ پھر ان میں ’’آفٹر برنر‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اس تیکنک کے حامل طیارے اور ہیلی کاپٹرز عموماً زمین سے قریب تر رہ کر پرواز کرتے ہیں تاکہ ارضی رکاوٹیں مثلاً پہاڑ، بلند درخت، عمارتیں وغیرہ ان کی آڑ بن جائیں۔

امریکا کے ففتھ جنریشن کے حامل طیارے اس ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، امریکا کا ایف ۔35 لائٹنگ 5 جنریشن ملٹی رول ایئر کرافٹ ہے، اسے ہر موسم کا پرندہ بھی کہا جاتا ہے، یہ طیارہ ہر موسم میں فضا سے زمین اور فضا سے فضا میں اپنی برتری ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ عمودی لینڈنگ اور پرواز کی صلاحیت بھی اسے دوسرے طیاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ طیارے میں 10 سے زائد ہارڈ پوائنٹس ہیں جن میں سے 5 اس کے اندر نصب ہیں۔ان تمام ہارڈ پوائنٹس پریہ روایتی ہتھیار کروز میزائل اور گائیڈڈ بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک وار فیئر جیسی خصوصیات سے بھی لیس ہے جس سے جہاں یہ راڈارز کی نظروں سے بچ کر دنیا کے بہترین دفاعی نظام میں داخل ہوسکتا ہے، وہیں اسے ناکارہ بھی بنا سکتا ہے۔یہ طیارہ جدید ترین ریڈارزسینسرز اور ایویونکس کی بدولت پائلٹ کو زمین اور فضا میں چاروں طرف کے حالات سے نہ صرف باخبر رکھتا ہے بلکہ جمع کی گئی انٹیلیجنس کو براہ راست اس سے لنک دوسرے اسٹیشنز کو بھی بھیج سکتا ہے،یہ طیارہ انفرا ریڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی نہیں پکڑا جاسکتا ہے- لوک ہیڈ مارٹن کا تیار کردہ دوسرا طیارہ ریپٹر ایف 22 بھی اسی ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو ہر قسم کے ریڈار سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
مضبوط ترین دفاعی تیکنک کی بدولت دیگر ممالک بھی اس میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں، کچھ ممالک اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے میں کامیاب تو بیشتر ناکام ہوچکے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان اور چین کے مشترکہ پروجیکٹ کی ہے۔ چین کا اسٹیلتھ طیارہ ’’ایف سی 31 جرفالکن‘‘ عرف ’’جے 31‘‘ )، جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کو امریکا کے قریب تر لے آیا ہے کیونکہ اسے صحیح معنوں میں امریکی ’’جوائنٹ اسٹرائک فائٹر‘‘ (جے ایس ایف) کا مدمقابل کہا جاسکتا ہے، اب تک اس کا دوسرا پروٹوٹائپ آزمائشی پروازیں کرچکا ہے، اس منصوبے میں پاکستانی انجینئر اور سائنسدان بھی چینی ٹیم کے ساتھ شریک ہیں، جب کہ ایک اور جے 20 جو جدید ترین چینی لڑاکا طیارہ اس میں بھی پاکستانی ماہرین شریک ہوچکے ہیں، یہ طیارہ بھی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ہے، یہ اسٹیلتھ طیارے ڈیٹا لنک کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان طیاروں کا شمار بھی ففتھ جنریشن کے طیاروں میں ہوتا ہے۔ یہ پہلا اسٹیلتھ طیارہ ہے جو امریکا سے باہر کسی دوسرے ملک میں وجود میں آیا۔اس چینی جنگی طیارے کی دل دہلا دینے والی اڑان امریکیوں کے دل و دماغ میں تشویش کی لہر دوڑا چکی ہے۔

ففتھ اور سیکستھ جنریشن کے طیاروں کی جدیدیت دیکھ کر مجھ پاک فضائیہ کے جانباز اور ورلڈ ریکارڈ بنانے والے لیجنڈری پائلٹ، اپنے بہترین دوست اور مینٹور ایم ایم عالم کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ "فضا میں دشمن سے جنگ کرنا اپنی آزادی برقرار رکھنے کا ذہانت بھرا طریقہ ہے"۔ سماء‘‘