بلوچستان کے خوبصورت ساحل
شہری زندگی کی تیز رفتاری اور گہما گہمی میں انسان کو پرسکون ماحول اور پُرفضا مقام پر تفریح میسر آئے تو بہت بڑی نعمت ہے، اس سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ذہنی و جسمانی توانائی حاصل ہوتی ہے، ایسی ہی تفریح اور سیاحت کیلئے بلوچستان کے ساحلی علاقے بہترین ہیں، یہاں صاف ستھرے ساحل، سمندر کا چمکتا شفاف نیلا پانی آنکھوں کو قدرت کا حسین نظارہ دکھا کر پرسکون کرتا ہے، یہاں کا دل فریب منظر انسان کو پریشانیوں سے کوسوں دور ایک نئے جہاں میں لے جانے کیلئے کافی ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں کیلئے حکومتوں کی جانب سے اگر باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے تو ان علاقوں میں سیاحت کو بھرپور فروغ دیا جاسکتا ہے اور اب تو اس بات کی قوی امید ہے کہ سی پیک کی بدولت ان علاقوں سے پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ہوگا۔
اگر ہم کراچی سے بلوچستان کے ساحلوں کا سفر شروع کریں تو پہلا ساحل گڈانی کا ہے۔
گڈانی
گڈانی کا ساحل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں حب دریا کے قریب واقع کیپ مونزے کے نزدیک ہے، یہ کراچی سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے، گڈانی کا ساحل کراچی کے ساحلوں سے کسی حد تک مماثلت رکھتا ہے مگر قدرے صاف ستھرا ہے، اس کے نزدیک دنیا کا تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ بھی ہے۔
سونمیانی
سونمیانی بلوچستان کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور یہ کراچی سے 90 کلومیٹر کی مسافت پر ہے، سونمیانی کا ساحل حب کے نزدیک ہے، جہاں کراچی سے 2 گھنٹے میں پہچا جاسکتا ہے، سونمیانی کا ساحل پاکستان کا چوتھا ڈیپ سی پورٹ بھی ہے اور سیاحت کے حوالے سے کافی مشہور ہے۔
کنڈ ملیر
کنڈ ملیر بلوچستان میں واقع صحرائی ساحل ہے جو کہ ہنگول نیشنل پارک کے نزدیک واقع ہے، یہ مکران کوسٹل ہائی وے پر زیرو پوائنٹ سے 145 کلو میٹر کی دوری پر ہے، کنڈ ملیر سے اورماڑہ کا سفر انتہائی حسین ہے، اس ساحل کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں ہوتا ہے، زیرو پوائنٹ کے بعد کسی قسم کی بنیادی سہولیات جیسا کہ ہوٹل، ریستوران، پیٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشن، موبائل فون سگنل نہ ہونے کے باوجود یہ ساحل اپنے پُرسکون، پُرامن ماحول کی وجہ سے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، کنڈ ملیر کا کراچی سے فاصلہ 4 گھنٹے کا ہے۔
اورماڑہ
مکران کوسٹل ہائی وے پر کراچی اور گوادر کے درمیان اورماڑہ شہر آباد ہے، اس کے ساحلوں کی وسعت اور پہاڑوں کی ہیبت سیاحوں کیلئے کشش رکھتی ہے، یہاں ایئرپورٹ بھی ہے، اورماڑہ کے کئی ساحل مشہور ہیں، ان میں اورماڑہ ہیمر ہیڈ کا ساحل، اورماڑہ ٹرٹل بیچ شامل ہیں، اورماڑہ ہیمر ہیڈ کے ساحل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ایک ساتھ صحرا اور ساحل کا نظارہ ہوتا ہے۔
آستولہ
جزیرہ آستولہ سیاحت اور تفریح کیلئے باقی ساحلوں سے ذرا مشکل ہے، یہاں تفریح کیلئے آنیوالوں کو مچھلی کے شکار، اسکوبہ ڈائیونگ اور کیمپوں میں ٹھہرنے کے بھرپور مواقع میسر ہیں، ایک ذرا سی مشکل یہ ہے کہ یہاں پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، آنے والوں کو کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ ہی لانا پڑتا ہے، ستمبر سے مئی تک یہاں مچھیرے ڈیرے ڈالتے ہیں جبکہ جون سے اگست تک سمندر سخت غصے میں ہوتا ہے اور سمندر کی لہریں بہت بلند اور موسم نا سازگار ہوتا ہے۔ یہ ساحل سے دور پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، یہاں پسنی سے کشتیوں کے ذریعے سے پہنچا جاتا ہے اور یہ فاصلہ 5 گھنٹے کا ہے۔
پسنی
پسنی کا چھوٹا سا علاقہ ضلع گوادر میں مکران کی ساحلی پٹی پر واقع ہے، یہ کراچی سے 450 کلومیٹر دور ہے، پسنی کے ساحلوں کی چٹانیں بلوچستان کے دیگر ساحلوں کی نسبت چھوٹی ہیں، پسنی کے ساحل کا نظارہ بھی انتہائی دلفریب ہے، اس علاقے میں بھی ایئرپورٹ موجود ہے۔
گوادر
گوادر پاکستان کا بڑا شہر بننے جارہا ہے، جس سے اس کے ساحلوں کی تیز رفتار ترقی میں مدد ملے گی، گوادر کے ساحلوں پر بلند و بالا چٹانیں، پرندے اور نیلا چمکتا پانی تفریح کیلئے آنیوالوں کا استقبال کرتا ہے، گوادر جیسا کہ ڈیپ سی پورٹ ہے، اسی طرح ساحل بھی ہے، گوادر بحیرہ عرب کے جنوب مغرب میں ہتھوڑی کے سر کی شکل کا جزیرہ نما علاقہ ہے جس کے دونوں طرف خلیج ہیں، جہاں گوادر ڈیپ سی پورٹ تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں ایئرپورٹ بھی ہے اور کراچی سے مکران کوسٹل ہائی وے سے بھی یہاں باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔
پشوکان
خلیج گوادر کے مشرق کی طرف پشوکان کا ساحل ہے جہاں پانی کا رنگ ہرا ہے، بلوچستان کی سب سے بہترین مچھلی یہاں ہوتی ہے، اس کا ساحل سیاحوں کیلئے بھرپور کشش رکھتا ہے، اس ساحل پر تیمر کے جنگلات بھی واقع ہیں۔
جیوانی
جیوانی کا ساحل ایران کی سرحد سے 34 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اس علاقے میں نیوی کا اڈہ اور ایئرپورٹ بھی ہے، پشوکان ساحل کی طرح یہاں بھی تیمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جوکہ بین الاقوامی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں، جیوانی کو جنگ عظیم دوم میں اتحادی افواج کی جانب سے فضائی اڈے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا، اس ساحل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملکہ وکٹوریہ نے یہاں سے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا اور ملکہ کیلئے ساحل پر ہٹ بھی تیار کرلیا گیا تھا وہ آئیں یا نہیں لیکن وہ ہٹ جسے وکٹوریہ ہٹ کہتے ہیں آج بھی موجود ہے۔