کسی کی جان لینا غلط بات ہے
یہی کوئی گیارہ سال پرانی بات ہے ، گیارہ سال کا تھا تب سے گھر کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھالی تھیں ۔ والد کی تنخواہ میں گزارا ممکن نہ تھا ۔ دو بڑی بہنوں کا ساتھ ، ماں بیمار اور باپ بھی ناتواں ، لہذا جس عمر میں صرف پڑھنا اور کھیلنا تھا ، لڑکا نوکری بھی کر رہا تھا ۔ وقت روایتی رفتار سے دوڑتا بلکہ اڑتا رہا۔ گیارہ سال کا تیمور بڑااوراس کی ذمہ داریاں بھاری ہوگئیں ۔
پہلے صرف گھر خرچ میں مدد کرتا تھا، اب تو اسے دو بڑی بہنوں کا بھی گھر بسانا تھا ۔ یہی سوچ کر نوجوان بھائی نے دو نوکریاں کرنے کی ٹھان لی ۔ آرام جانے کا غم نہ ہوا ، خوشی تھی تو اس بات کی ملک کے نامور چینل میں بھی نوکری مل گئی ۔ صبح گارمنٹ کی فیکٹری میں وقت گذرتا تو شام خبروں کے پیچھے دوڑنے میں ۔ بائیس سالہ تیمور کو ڈی ایس این جی اسسٹنٹ بنے ڈیڑھ سال ہوگئے ۔ ایک بہن کی شادی کرادی ، اب دوسری کی باری تھی ۔ ماں کے لئے اچھی سی بہو بھی تو لانی تھی ۔ بس انہیں سپنوں کو پورا کرنے میں شب و روز گذرنے لگے اور وہ بدقسمت دن بھی آن پہنچا جب جواں سال تیمور کے تمام خواب آنکھوں میں ہی رہ گئے ۔
بارہ فروری اتوار کو نارتھ ناظم آباد میں پولیس پر کریکر حملے کی خبر لینے جانے والا خود خبر بن گیا ۔ دہشت گردوں نےسماء کی وین کو نشانہ بنایا ۔ سات گولیوں میں سے ایک گولی تیمور کی گردن میں لگی اور جان لے گئی ۔ جواں بیٹے کی میت بوڑھے باپ کے سامنے پہنچی تواس کی زباں سے فقط یہ الفاظ ہی ادا ہوسکے ( کسی کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ کسی کی جان لینا غلط بات ہے)
ماں تو بدعا بھی نہ دے سکی ، بس بیٹے کو پکارتی رہی ۔ تیمور لادو، کسی سے کوئی گلا نہیں ۔ بہنوں کو بھائی کے جانے کا بھلا کیسے یقین آتا ، جو کبھی حالات سے ہارا نہیں تھا وہ بھائی اپنا وعدہ پورا کئے بغیر کیسے چلا جاتا۔گھر والوں کے برستے آنسوؤں کے ساتھ زباں سے پھوٹتے سادہ سے الفاظ میں چھپا درد کا شعلہ اس قدر طاقت ور تھا کہ آن کی آن میں سب کچھ جلا کر راکھ کردیتا۔
غم کی شدت کا طوفان روح کو جھنجھوڑ دیتالیکن یہاں تو کوئی زندہ ہی نہیں۔اس بستی کے باسی تو پہلے ہی مرچکے ہیں اور مردہ معاشرے کی روح نہیں ہوتی ۔ جہاں ہر روز ایک تیمور دشمنی ، نفرت ، دہشتگردی ، فرقہ واریت یا پولیس گردی کا نشانہ بنتا ہو اور قاتل آزاد رہے۔ تفتیش کاغذی کارروائی سے آگے نہ بڑھے ، انصاف کے ادارے بے بس رہیں، حکمرانوں کا کام وفقط مذمتی بیانات تک محدود ہو، وہاں ایسی آہیں اور سسکیاں دب جاتی ہیں، صرف فریاد رہ جاتی ہے۔
تیمور کے والد کی طرح ہر باپ کی بس یہی ایک فریاد کہ کسی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے ،کسی کی جان لینا غلط بات ہے۔