دہشت گردی اور نتیجہ نما نکتہ نظر
پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہرنے پھر وہی بے تکی بحث و تکرار چھیڑ دی ہے جس کا سر ہے نہ پاؤں ہے۔ ان پڑھ عوام تو ایک طرف پڑھے لکھے خواص کا بھی کوئی حال نہیں۔یونیورسٹی کے طلبہ ہوں یا سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ملازم، کاروباری افراد ہوں یا بے روزگار نوجوان کسی سے بھی بات کر کے دیکھ لیں۔ ذرا پوچھیں کے دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو رہی اور پھر دیکھیں کے کیسے کیسے جواب ملتے ہیں۔
بات دہشت گردی کے محرکات کی ہو یا دہشت گردوں کی سیاسی و مذہبی وابستگی کی ، ہمارے عوام و خواص کی اکثریت کا علم لگے بندے، رٹے رٹائے اور سنے سنائے دو چار جملوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو پتا ہی نہیں کے دہشت گردی ہوتی کیا ہے تو وہ اس کے ختم نہ ہونے کی وجہ کیسے بتائے گا۔ اگر اسے علم ہی نہیں کہ دہشت گردی کے محرکات کیا ہیں تو وہ کس طرح دہشت گردی کے اسباب کے سدِباب کی بات کرتے ہوئےمثبت رائے عامہ کی تعمیر میں کردار ادا کرئے گا۔
یہ درست ہےکہ دنیا بھر میں دہشت گردی پر طرح کی طرح کی آرا ہیں اور اکثر مبہم اور غیر واضح بھی ہیں۔مثال کے طور پر دہشت گردی کی بنیادی تعریف مختلف ملکوں اور اداروں کے ہاں مختلف ہےلیکن جس قدرابہام پاکستان میں ہے،شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو۔دہشت گردی کے حوالےسے اس انتہائی مبہم اور متشدد حد تک مطلق سوچ کی بے شمار وجوہات ہیں۔
بڑی وجوہات میں دہشت گردی کے حوالے سے تعلیم کا نہ ہونا،معلومات کے لیے کلی طور پر ٹی وی ٹاک شوز پر انحصارکرنا،غیر جانبدارمطالعے کی کمی ہونا، سیاسی شعور کا فقدان ہونا، مذہبی حوالے سے بے جا حساسیت کا پایا جانا، اور عوام و خواص کا سو طرح کے پروپیگنڈے کی ضد میں ہونا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
گو دنیا دہشت گردی کے حوالے سے بہت ساری چیزوں پر متفق نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس ضمن میں مکمل اندھیرہے اور جس کا جو دل کرے وہ دہشت گردی کو اس شے سے منسلک کردے۔ جیسے ہمارے ہاں عمومی طور پر ہوتا ہےکہ اول تو سرے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ کوئی مسلمان دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کسی کو یہ دلیل دے کر کہ بھائی پاکستان کی جیلیں چوروں ، ڈاکوں، زانیوں ، شرابیوں اور قاتلوں سے بھری ہوئی ہیں اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اگر ایک مسلمان چور ہو سکتا ہے ، وہ زانی ہو سکتا ، وہ قاتل ہو سکتا ہے تو وہ دہشت گرد بھی ہو سکتا۔ اس یہ مان بھی لیا جائے توکہا جاتا ہے کہ بھائی یہ سب بیرونی طاقتوں کی وجہ سے ہوتاہے۔
یہ بھی کہاجائےگاکہ دہشت گردی تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہےجوکہ ایک اور مغالطہ ہے۔اگر تعلیم کی کمی دہشت گردی کا محرک ہو تو دہشت گردوں کی تعداد ہزاروں نہیں کروڑوں میں ہو کیونکہ پاکستان کی آدھی سےزیادہ آبادی ناخواندہ ہے۔ یا کہا جائے گا کہ یہ سب سماجی ناانصافی کی وجہ سے ہےجوکہ ایک اورغلط فہمی ہے۔ انصاف کا نہ ملنا یقیناً بہت سارے بگاڑ پیدا کرتاہےلیکن ناانصافی اور دہشت گردی کا برائے راست کوئی تعلق نہیں اوراگر ہو تولوگ ناانصافی کے خلاف قانون کی مدد لینے کی بجائےدہشت گردوں کی مدد لینا شروع کردیں۔
دہشت گردی نہ تو جہالت کی وجہ سے نہ ناانصافی اور غربت کی وجہ سے بلکہ یہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے معصوم انسانوں کو قتل کرنا یا قتل کر دیے جانے کے خوف میں مبتلا کرنے کا عمل ہے اور اس کو اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لاکھوں نہیں تو ہزاروں تحقیقی کام ہو چکے ہیں جو دہشت گردی کے محرکات سے لے کر اس کے خاتمے تک کا راستہ مہیا کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ راستہ بہت واضح نہیں پر پھر بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک بنیادی خاکہ ضروری پیش کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ من چاہے ،مطلق اور نتیجہ نما نقطہِ نظر کو ترک کر کے دہشت گردی کو سائنسی تحقیق کی روشنی میں سمجھ کر اس کے خاتمے کی جنگ لڑی جائے۔