
آج صبح اسپورٹس بورڈ والی شاہراہ سے گزر ہوا تو قذافی اسٹیڈیم کی لائٹوں کی صفائی اور مرمت ہوتے دیکھا، سوچا معمول کی مرمت ہو گی۔ لیکن دل میں ایک تشنگی پیدا ہوئی یہ مرمت کیوں کی جا رہی ہے؟ ایسے میں کرکٹ بورڈ کے دوست کو فون لگایا اور طنزا پوچھا کہ یہ صفائی کے کون سے دن ہیں؟؟ جواب ملا شام کو چائے پر ملاقات ہوتی ہے۔ شام کو قذافی سٹیڈیم پہنچا تو دوست نے ہاتھ ملاتے ہی کہا کہ تم صحافیوں کے دلوں میں نئے نئے سوالات کہاں سے ابھرتے ہیں؟ میں مسکرایا تو صاحب بولے میاں تم ابھی عمر اور تجربے میں چھوٹے ہو لیکن عزم میں مجھ سے بڑے ہو۔ میں سوچ رہا تھا یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو دوست بولے عزم و ہمت اور مسلسل جدوجہد سے کامیابی ملتی ہے۔ جس کی تازہ مثال ایران ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پابندیوں کا ایک ایسا شکنجہ تھا، جس نے ایرانی معیشت کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا۔ دنیا کی کوئی کمپنی، کوئی ملک ، حتٰی کہ پاکستان بھی اپنے ہمسائے ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرتا تھا۔

معمولی سوئی سے لے کر ہوائی جہاز کے پرزوں تک دنیا کا کوئی بھی ملک ایران کو کچھ بھی دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ 1979 سے لے کر 2016 تک ایران کے خلاف لگنے والی پابندیاں اگر کسی اور ملک پر لگی ہوتیں تو آج وہ شاید اپنا وجود کھو چکی ہوتی یا گھٹنوں پر آچکی ہوتی۔ لیکن ایرانی عوام نے اپنی صلاحیت اور عزم و ہمت کے بل بوتے پر نئے مواقع دریافت کئے۔ میں نے بیچ میں ٹوکا اور پوچھا جناب آپ مجھے ایران کی کہانی کیوں سنا رہے ہیں؟ میں نے تو صرف آپ سے قذافی سٹیڈیم لائٹوں کی مرمت کا پوچھا تھا۔ تو وہ بولے تین دہائیوں بعد دنیا کی بڑی طاقتوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ ایران کو اس کے عزم میں نہیں ہرایا جا سکتا۔

تو تمہارے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہم نے قذافی سٹیڈیم میں ہم نے پاکستان سپر لیگ کا فائنل کرانے کا عزم کر لیا ہے۔ میں مسکرایا تو دوست نے عینک کے اوپر سے مجھے دیکھا اور کہا کیوں میاں چکرا گئے نا ۔۔۔۔ میں نے کہا جناب کیوں مزاق کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ابھی دو دن قبل لاہور کی مرکزی شاہراہ میں بم دھماکہ ہوا ہے، جس کے ایک طرف صوبے کا سب سے بڑا ایوان ہے دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب کا دفتر جبکہ چند ہی گز کے فاصلے پر حساس ادارے کے دفاتر بھی۔ وہ جگہ تک تو محفوظ ہے نہیں اور آپ باتیں کر رہے ہیں پی ایس ایل کے فائنل کی لاہور میں۔ تو اپنی چائے ختم کرتے ہوئے بولے کہ میاں اب جنگ ہے عصاب کی ہمارے اور دہشتگردوں کے۔ میں نے کہا کہ سال 2015 میں ہونے والی پاکستان زمبابوے کے لاہور میں ہونے والے میچ میں بھی رکشہ میں بم دھماکہ ہو گیا تھا۔ جائلز کلارک کی رپورت ابھی تک نہیں آئی اور آئی سی سی نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان جانے سے منع کر دیا تھا، اس کے باوجود بھی آپ یہ باتیں کر رہے ہیں۔ تو صاحب بولے کہ میاں ہم عزم کر چکے ہیں اور اس عزم میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔

میں نے انہیں ان کے عزم کی کامیابی بارے دعا دی اور رخصت چاہی۔ راستے میں مجھے پاکستان سپر لیگ کے چئیرمین نجم سیٹھی سے چند دن پہلے کھانے پر ہونے والی ملاقات یاد آ گئی جس کا تذکرہ وہ بار بار ٹیلی ویژن کی شکریوں پر بھی کرتے رہے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی کرائینگے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان بھی اپنی سے بڑی ٹیم کے ساتھ صرف مضبوط عزم کی بنیاد پر ہی ٹکرا جایا کرتے تھے، بعد میں آنے والے کھلاڑیوں کو بھی عزم اور ہمت ہی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ عمران خان ہی کے بقول لاہور دھماکہ غیر ملکی طاقتوں کی پاکستان میں کرکٹ کو مزید ختم کرنے کے حوالے سے سازش ہو سکتی ہے۔ لیکن اب سپ سالار نے بھی سینہ سپر ہو کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کی ہر ممکن مدد کی جائے گی جس پر نجم سیٹھی بھی بول اٹھے ہیں کہ اگر غیر ملکی کھلاڑی نہیں آتے تو ان کی مرضی لیکن پی ایس ایل کا فائنل وہ پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہی لاہور میں کرا دینگے۔

یہ تحریریں لکھنے تک دل ہی دل میں ان کے عزم کو دعا دے رہا ہوں۔ کیوں کہ یہ لڑائی واقعی اب عصاب کی ہے۔ دہشت گرد اپنی ہر بزدلانہ کارروائیوں سے عزم کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں بطور پاکستان اور ایک قوم ان کی ہر بزدلانہ کارروائی کا جواب دینا ہے۔ زندگی ایک کہانی ہے اور ہم سب اس کہانی کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ ان کرداروں میں دھنک کے رنگ بھرنے ہیں یا اماوس رات کے‘ یہ فیصلہ تقدیر کے ذمے لگا دیا جاتا ہے مگر اب ایسا نہیں ہوتا کیونکہ کمزور انسان جب آہنی عزم کے ساتھ کچھ کرنے کی ٹھان لے تو جیت ہمیشہ عزم ہی کی ہوتی ہے۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے سے غیر ملکی ٹیموں کی آمد کے راستے کھل جائینگے لیکن ان سب کے لیے پوری قوم کا یک عزم ہونا بہت ضروری ہے اور ہر کسی کو اپنے حصے کا حق ادا کرنا ہوگا۔ سماء