اسٹیفن ہاکنگ دنیا کیلئے" ایک اثاثہ"۔
۔۔۔۔۔** تحریر : شکیلہ سبحان شیخ **۔۔۔۔۔
وطن عزیز کے کالم نگاروں کی واحد نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ نے جب "میں معذور نہیں، اثاثہ ہوں" مہم کا آغاز کیا تو سب سے پہلے میرے ذہن میں آنے والا نام "اسٹیفن ہاکنگ" تھا جوعہدِ حاضر کا ایک مایہ ناز سائنسدان ہے جس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنایا اور دنیا پر ایک چمکتے ستارے کی مانند نظر آیا انہیں ثانی آئن اسٹائن بھی کہا جاتا ہے۔
تقریباً 7 ارب سے زائد نفوس پر مشتمل دنیا میں کوئی بھی صحتمند انسان دوسرا آئن اسٹائن نہ بن سکا، 8 جنوری 1942ء کو انگلینڈ میں پیدا ہونیوالے شخص نے یہ اعزاز حاصل کیا جو کہ معذور پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی پیدائش کے 20 سال بعد جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، تب اس پر آشکار ہوا کہ وہ "موٹر نیوران ڈزیز" جیسے ناقابلِ علاج مرض کا شکار ہوچکا ہے، جو انسان کے ان اعصاب کی بتدریج موت کا سبب بنتا ہے، جو پٹھوں کو قابو کرتے ہیں اس بیماری کے اکثر شکار 5 برس کے اندر ہی مرجاتے ہیں، تاہم ہاکنگ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کی بیماری نے بہت ہی سست رفتاری سے بڑھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی ٹانگیں، بازو، ہاتھوں اور پھر زبان کو مفلوج کردیا اور وہ چلتا پھرتا شخص ایک وہیل چیئر تک محدود ہوگیا اور دنیا سے ان کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے ہی ہوپاتا ہے۔
متحرک زندگی سے مفلوج زندگی تک کا سفر انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اگر انسان کے ارادے امید اور حوصلے سے لبریز ہوں اور اس کے اپنے اندر ایک عزم ہو اور کچھ کرنے کا جنون ہو تو ناممکنات سے ممکنات کے صحرا کو عبور کرنا بالکل بھی دشوار نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے اسٹیفن ہاکنگ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں معذوری کو کسی گناہ کی سزا نہیں سمجھا جاتا، وہاں معذور افراد کو لاچار اور محتاج سمجھ کر گھروں میں قید نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ثواب کمانے کی خاطر انہیں صرف زکوٰة اور صدقات کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
اسٹیفن کا تعلق ایک ایسے ترقی یافتہ ملک سے ہے جہاں معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، وہاں کے معاشرے معذور افراد کو بھی اپنی ہی طرح خدا کی مخلوق سمجھتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی لے آتے ہیں، ہمارے سامنے اس کی ایک بڑی مثال اسٹیفن ہاکنگ ہیں، انہوں نے شدید ترین معذوری کا شکار ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں حیرت انگیز سنگ میل عبور کئے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے کیمبرج یونیورسٹی سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور فزکس سے متعلق کئی ریسرچ پیپرز تحریر کئے، "وقت کی مختصر تاریخ" کے عنوان سے ہاکنگ نے ایک شہرہ آفاق کتاب تحریر کی، جسے ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے، ان کا زیادہ تر کام بلیک ہولز اور کاسمولوجی (علمِ کائنات) کے میدان میں ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’شدید معذوری کبھی بھی میری زندگی کی کامیابیوں میں رکاوٹ نہیں بنی، میں بھرپور جوانی میں ہی شدید معذوری کا شکار ہوگیا تھا لیکن میری معذوری مجھے فزکس کے میدان میں ایک ممتاز کیریئر بنانے اور ایک خوشحال ازدواجی زندگی بسر کرنے سے کبھی روک نہ سکی، مجھے ہمیشہ سے پہلے درجے کی طبی دیکھ بھال اور ذاتی مددگار کی ایک ٹیم میسر رہی ہے، جن کی بدولت میں نے ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ کام کیا، میرے گھر اور میرے کام کی جگہ کو میرے لئے قابل رسائی بنادیا گیا ہے‘‘۔
کمپیوٹر کے ماہرین مجھے ایک مواصلاتی نظام اور ایک تقریر مرکب ساز (اسپیچ سینتھی سائزر) کی مدد سے لیکچرز دینے، کاغذات تحریر کرنے اور حاضرین کے ساتھ بات چیت کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ، یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا، لیکن مجھے احساس ہے کہ میں بہت خوش قسمت ہوں، کیونکہ میں ایک ترقی یافتہ ملک کا معزز معذور شہری ہوں، تھیوریٹکل فزکس میں میری کامیابیاں اس بات کی ضامن ہیں کہ میں ایک قابلِ قدر زندگی بسر کررہا ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے بیشتر معذور افراد انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں، انہیں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے اور قابلِ قدر روزگار حاصل کرنے کیلئے بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسٹیفن کے یہ الفاظ ترقی پذیر ممالک کے ان معذور افراد پر صادق آتے ہیں جہاں انہیں 21ویں صدی میں بھی صرف خدا ترسی اور ہمدردی کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔