حفظ ما تقدم

Anti-Trump Protesters Continue To Demonstrate Across The Country یہودیوں سے بھرے بحری جہازوں کو امریکی سرحدوں سے واپس لوٹنا پڑا تھا، نازی ازم کی لٹکتی تلوار سے ہونے والی یقینی موت سے بچانے کے لیے امریکی ریاست نے یہودیوں کی کوئی مدد نہیں کی تھی، ایک خاص مزہب کے لوگوں کو مرنے کے لیے بے یارومددگار چھوز دیا گیا تھا۔اس سانحے کو صدی گزر گئی، دنیا ترقی کر گئی ، مز ہب کی بنا پر مارنا، ملک بدر کرنا غلط گردانا جانے لگا،مہاجرین کی مدد کے لیے اقوام متہدہ نے کئی زیلی ادارے بنا ڈالے، ایمنسٹی انٹرنیشنل شامی مہاجرین کے لیے گاہے بگاہے آواز اٰٹھاتی رہی، جرمنی اور کنیڈا نے مہاجرین کی مدد کرنے کا اعلان کر کہ ثابت کر دیا کہ مزہبی جنونیت کی بجائے انسانیت بینالاقوامی تعلقات میں اہمیت کی حامل ہے۔مگر پینتالیسویں امریکی صدر کی آمد نے حالات کو پرانی نہج پر لاکھڑا کیا ہے جہاں پھر سے ایک خاص مزہب کے لرگ امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ trumpUK-660x330 سات مسلمان ممالک کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اٰسی پرانے سلسلہ کی ایک نئی کڑی مہسوس ہوتی ہے،جہاں بیک وقت سات ممالک پر پابندی لگا کر نازی ازم کی یاد تازں کر دی گئی،دلچسب بات یہ ہے ان سات ممالک میں سے کوئی بھی امریکہ میں دہشتگردی میں ملوث نہیں،امریکہ کی مسلط کردہ جنگ کا شکار ضرور ہیں بلخصوص عراق اور شام کی تباہی میں امریکہ پیش پیش رہا ہے۔اس پابندی پر دنیا گیر احتجاج دیکھنے میں آیا ہے مگر سعودیہ اور عرب امارات کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جس میں اس کام پر تنقید کی گئی ہو، سوال پیدا ہوتا ہے کیا یہ ممالک مسلمان نہیں یا یہ ایجنڈا صرف لٹے پٹے تباہ حال مسلمان ممالک کے لیے ہے اور کیا ان ملکوں کو یقین ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان ممالک کے تجارتی تعلقات اٰنھیں دہشت گرد کے داغ سے محفوظ کر لیں گے۔ Demonstrators protest  near the White House in Washington, DC, for the Women's March on January 21, 2017. Hundreds of thousands of protesters spearheaded by women's rights groups demonstrated across the US to send a defiant message to US President Donald Trump. / AFP PHOTO / Andrew CABALLERO-REYNOLDS جہاں ان ممالک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے وہیں داعش کی طرف سے اس بات پر خوشی کا اظہار اس بات کو تقویت دینے کی ایک بھرپور کوشش ہے کہ مغرب اور اسلام اکٹھے نیہں رہ سکتے ، اس سوچ کا اثر یقیناًساری دنیا پر پڑے گا اس صدی کے نازی ازم اور فاشزم کی گونج ہر براعظم خصوصا مسلمان میں ضرور سنائی دے گی اور ہو سکتا ہے سات ممالک کی یہ فہرست طویل ہو جائے کیونکہ امریکی صدر جس تیزی سے اپنے انتخابی نعروں پر عمل پیرا ہو رہا ہے اٰس کی زد میں پاکستان اور افغانستان آسانی سے آ سکتے ہیں، گو کہ انتخابات کے بعد پاکستانی وزیر اعظم سے ٹیلیفونک رابطہ مثبت قدم تھا مگر جس قسم کے بیان ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے حوالے سے امریکی صدر نے دیے ہیں وہ شکوک شبہات کو جنم دے رہے ہیں ، کیا امریکی صدر پاکستان کو ایک ایسا ملک سمجھتا ہے جس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے دریغ جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ، جس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے ممکنہ وسائل کا استعمال کیا ہے، موجودہ حالات تو یہ نہیں ظاہر کرتے۔ US-POLITICS-TRUMP-INAUGURATION-PROTEST امریکی صدر نے جماعت الدوہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف جس قسم کے اقدام کا مطالبہ کیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی صدر اس بات کا قائل ہے کہ پاکستان کچھ دہشتگردوں کو ابھی بھی پال رہا ہے۔کجھ عرصہ پہلے لاہور ہائی کورٹ نے ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باعث جماعت الدعوہ کو پاکستان میں فلاحی کام کرنے کی اجارت دی تھی اور اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر الدعوہ پر سے پابندی اٰٹھا لی گئی تھی پر اب لگنے لگا ہے کہ امریکی صدر کی بڑ سمجھی جانے والی پالیسیاں اب پاکستان کے حکومتی ایوان میں بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں ، زکی ارحمن لکھوی کا باعزت بری ہو جانا بھی پاکستان کے گلے کا پھندہ بنتا نظر آ رہا ہے، یہ تعلقات پاکستان امریکہ کے باہم معاملات کے لیے کوئی اچھا پیش خیمہ نہبں دکھا ئی دے رہے اور یکدم بدلتی پاکستانی پالیسیاں ان تعلقات سے نمٹنے کے لیے ایک کوشش دکھائی دے رہی ہیں ، حافظ سعید اور چند مخصوص افراد کی نظز بندی اس عمل کی شروعات ہیں جس سے پا کستان یہ ظاہر کرنے کی پرزور کوشش کر رہا ہے کہ ہم دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں اور دنیا میں خود کو مثبت طرز عمل کی قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں، خود کو دفاہی،معامشی اور نقل و حرکت کی پابندیوں سے بچانے کے لیے یہ گرفتاریاں اور نظربندیاں ایک حفظ ما تقدم ہے۔ سماء

US president

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div