پاکستانی شائقین اورکرکٹ ٹیم
پہلے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پاکستانی شاہینوں کو ٹیسٹ میچزاور پھرایک روزہ میچز میں بھی منہ توڑ شکست کا سامناکرنا پڑا۔ پھرآسٹریلین کینگروز کے بیٹسمینوں نے ٹیسٹ اور پھر ون ڈے سیریز میں ایسی دھلائی کی کہ پاکستانی کپتان اظہرعلی کو اس غضب ناک شکست کی بھینٹ چڑھانے کا ارادہ کرلیا گیا ۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ان حالیہ بدترین شکستوں کے بعد پھر بھی پاکستانی عوام ایسے ڈھیٹ اور شیدائی ہیں۔ جو ہر میچ ایسے انہماک اور تجسس سے دیکھتے ہیں جیسے پاکستانی ٹیم کبھی کوئی میچ ہاری ہی ناہو اور ناصرف پاکستانی بالرز بلکہ بیٹسمین بھی ہمیشہ پاکستانیوں کی توقعات کے عین مطابق کھیل پیش کرتے رہے ہوں۔
پاکستانی کرکٹ تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کوئ سیریز ہارنے کے بعد ٹیم سمیت پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ماضی میں بھی جب پاکستانی ٹیم کسی بھی حریف ٹیم سے ہار کر یا کسی بھی ٹورنامنٹ میں بری کارکردگی کی وجہ سے ہارتی ہے تو کبھی کپتان، کبھی کوچ اور کبھی چیف سیلکیٹر کو ٹیم کی کارکردگی کاذمہ دارٹہراتےہوئے فارغ کردیا جاتا ۔
اس طرح ناکامیوں کا یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہیگا۔اگر دیکھا جائے تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں کے بعد کی جانیوالی برطرفیوں سے نقصان صرف کرکٹ کو ہی ہوتا ہے۔بے شک اس کے کہ کرکٹ کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے ناصرف پلیئرز کو بلکہ کوچ سمیت دیگر منتظمین کو بھی حوصلہ دیا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بری کارکردگی دکھانے والے پلیئرز، کوچ اور چیف سیلیکٹر کی چھٹی کروادی جاتی ہے۔ جس کے بعد کچھ نئے پلیئرز کے ٹیم میں آنے اور کوچ اور چیف سیلکیٹر کی تعیناتی کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم پھر سے ہارنے اگلے دورے پر روانہ ہوجاتی ہے۔ جہاں پھر توقعات کےعین کبھی بیٹسمین نہیں چلتے اور کبھی بالرز کی ٹھکائی کی وجہ سے پاکستان کو شکست پر شکست کا سمانا کرنا پڑتا ہے۔ یوں یہ شکستوں کا یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔
پاکستانی ٹیم کی شکستوں کی وجہ صرف کرکٹ بورڈ یا کھلاڑی نہیں بلکہ پاکستانی عوام بھی ہیں۔ جو کرکٹ کے میچ کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ کرکٹ کے کھیل کو کھیل سمجھنے کی بجائے اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔دیکھا جائے تو دیگر معاملات کی طرح پاکستانی کرکٹ کے معاملے میں بھی انتہا پسند ہی ثابت ہوئے ہیں جن کا کرکٹ سے شدید لگاؤ ان کے انتہا پسند ہونے کا ثبوت ہے۔
پاکستانیوں کی انتہا پسندی، انتہا پر اس وقت پہنچتی ہے جب پاکستان کا میچ ہمسایہ ملک بھارت کی حریف ٹیم سے پڑ جائے۔ پھر کیابچے، کیا جوان اور کیا بوڑھے، سب کے دماغوں پر پاکستان اور بھارت کا میچ ہوتا ہے۔
یہ تو شکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ہوم سیریز کا انعقاد نہیں ہوتا، ورنہ پاکستانیوں کی اکثریت سال میں کئی مہینے پاکستان اور بھارت کے میچوں کے درمیان ہی پھنسی رہتی۔
پاکستانی کرکٹ شیدائیوں کو دیکھتے ہوئے کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیئے کہ بورڈ سیاسی مداخلت کو رد کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹ کی بہتری کیلئے کام کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ کرکٹ ایک کھیل ہے۔ لیکن پاکستانیوں کا کرکٹ کے ساتھ لگاؤ اور شیدائیت پاکستانیوں کو ہر میچ دیکھنے اور ہر میچ جیتنے کی دعا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے حالات میں ناصرف کھلاڑیوں بلکہ بورڈ کو بھی عوام کی خواہشات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کھیلنا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستانی ٹیم جتنا مرضی برا کھیل لے۔ جتنے مرضی میچ ہار جائے۔ بھارت سے جتنی مرضی بار شکست کا سامنا کرنے پڑے پاکستانیوں نے کرکٹ میچز دیکھنے نہیں چھوڑنے۔