امریکی صدارت: کانٹوں کی سیج یا طاقت کا نشہ
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45ویں صدر کے عہدے پر براجمان ہوچکے ہیں۔ انھوں نے صدارت پر فائز ہوتے ہی وہ کچھ کرنا شروع کردیا جس کا انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں تذکرہ کیاتھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار امریکا کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے کاروبار کو خوب چمکایا۔ ٹرمپ نے پچھلے 35 برسوں میں بڑی محنت سے ایسی کاروباری سلطنت قائم کی جس نے انھیں بھرپور اعتماد دیا۔
عمر کے اس حصے میں جب اکثر ایشیائی مرد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہوتےہیں،ٹرمپ نے سیاسی میدان میں وہ کامیابی سمیٹی جس کا صرف تصور ہی کیاجاسکتا ہے۔وہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے صدر اور فوج کے کمانڈر ان چیف ہیں۔ ان کے ایک اشارے پر جدید ترین میزائل ادھر سے ادھر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ غالبا اپنے طاقتور ہونے کا اندازہ خود ٹرمپ کو بھی ابھی نہیں ہوگا۔
ٹرمپ نے 1988 میں بھی پہلی بار امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی تاہم اس وقت وہ اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہناسکےتھے۔اس کے بعد بھی وہ امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر گاہے باگاہے صدر بننے کی خواب دیکھتے رہے تاہم یہ خواہش صرف دل میں ہی رہی۔
اس بار انھوں نے 2015 میں ہی امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ اس مقصد کےلیے انھوں نے اپنے تمام تروسائل استعمال کئے۔ ٹرمپ کا ساتھ دینے کے لیے ان کے خاندان والے بھی آگے آگے رہے۔ ان کے بیٹے اور داماد نے بھی صدارتی مہم میں ٹرمپ کا بہت ساتھ دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے ان چیدہ چیدہ صدور میں سے ہیں جنھیں ماضی کے کسی حکومتی عہدے یا فوجی منصب کاکوئی تجربہ نہیں ہے۔
ٹرمپ اگرچہ کامیاب ترین بزنس مین تصور کئے جاتے ہیں مگر امریکا کی صدارت ان کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی۔ انھوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بڑے بڑے متنازع بیانات بھی دئیے اور اب لگتا ہیں کہ وہ اپنی کہی ہوئی ہر بات پوری کردیں گی۔
ٹرمپ نے دنیاکے سات ممالک سے شہریوں کو امریکا آنے پر پابندی لگانے کافیصلہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاکہ دنیا میں بہت زیادہ پریشانی ہے۔اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔ انھوں نے میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ٹرمپ کے ان دونوں فیصلوں پر امریکا سمیت کئی ممالک میں احتجاج شروع ہوگیاہے۔ میکسیکو نے تو اس دیوار کو بنانے کے لیے رقم فراہم کرنے سے انکار بھی کردیا ہے۔ تاہم اس بار لگتا ہے کہ امریکا کا صدر کسی بھی دباؤ میں آنے والا نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے کھلے ڈلے انداز اور دبنگ شخصیت سے جلد ازجلد امریکا کو اوباما دور کے فیصلوں سے نکالنا بھی چاہتے ہیں۔ ہیلتھ کئیر سمیت تجارت اور صنعتی شعبوں میں بھی وہ ٹیکس چھوٹ دینے کا ممکنہ ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے کاروباری تجربے سے وہ امریکی معیشت کو نئی سمت پر گامزن کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ امریکی کی معاشی ترقی کا دارومدار ٹرمپ کی بہترین تجارتی پالیسی پر ہوگا۔
امریکا میں موجوددنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے یہ تھوڑا نازک موقع ہوگا۔ یہ ری پبلیکن صدر اگرچہ کوئی سخت ترین اقدام تو نہ کرے،مگر مسلمانوں کے لیے امریکا میں سختیاں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے چیلنج ہوگا۔ وہ اس جنگ میں امریکا کے کم سے کم نقصان کے ذریعے یہ بات باور کروانا چاہیں گے کہ دنیا میں جہاں بھی امریکا کا کوئی دشمن ہوگا،اس کےلیے دنیاتنگ کردی جائے گی۔
آنے والے چند ماہ امریکا کے لیے اہم ہونگے۔ نئے صدر کی نویلی پالیسیاں بھی امریکیوں کا دل جیتنے اور ان کا اعتماد بحال کرنے میں کس حد تک کامیاب ہونگی، اس کےلیے تحمل ،برداشت اور فہم کی ضرورت بھی ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیا امریکیوں کے دلوں سے بارک اوباما کی یادیں ختم کرنے میں کامیاب ہونگے یا پھر انھیں اپنے فیصلے مسلط کرنے پڑیں گے،اس بات کا فیصلہ امریکی عوام خود کرلے گی اور اس لیے دنیا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔