امریکا کے منقسم عوام
بلآخر بیس جنوری بروز جمعہ منتخب صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ باقاعدہ طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پنتالیسویں صدر بن گئے۔ جمعہ کے دن جب ایک طرف نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری ہو رہی تھی اسی وقت دوسری طرف لاکھوں امریکی واشنگٹن کی سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے۔ یہی نہیں نئے صدر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور غیر ملکی جریدوں کےمطابق تقریباً پچیس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے امریکہ بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف منعقدہ مظاہروں میں شرکت کی۔ یہ سیاسی تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہےجب اتنی بڑی تعداد میں عوام نے دنیا کی "واحد سپر پاور" کے صدر کے خلاف امریکہ سمیت دنیا بھر میں مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایسا کیا کیا ہے یا کر سکتے ہیں جس پرامریکا بھر کے عوام دو دوھڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے کروڑوں کی تعداد میں ووٹ دے کر انھیں صدر منتخب کیا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
دراصل نہ تو حمایت کرنے والے بے وقوف ہیں اور نہ ہی مخالفت کرنے والے۔ دونوں طرف عقلمند لوگ بھی ہیں اور بے وقوف بھی۔ کالے بھی اور گورے بھی۔ امریکی بھی اور غیر امریکی بھی۔ خواتین بھی اور حضرات بھی۔ دونوں اطراف کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔
مخالفین کا اعتراض ہے کہ صدر ٹرمپ 'بدتمیز اور منہ پھٹ' ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ 'انسان جو محسوس کرئے اس کو وہی کہنا چاہئے اور ٹرمپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں'۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا میکسیکن بارڈر پر دیوار بنانے کا ارادہ بے وقوفانہ ہے۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے میکسیکو سے امریکہ میں ہونے والی انسانی سمگلنگ کا خاتمہ ہوگا۔ مخالفین کا اعتراض ہے کہ ٹرمپ کا اقلیتوں سے رویہ غیر انسانی ہے جبکہ حامیوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ جیسی سوچ ہی امریکہ کو پھر سے گریٹ بنا سکتی ہے۔
ایک چیزجو مستقبل کے تناظر میں اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ مظاہرین صدر ٹرمپ کے خلاف نہیں صدر کے ممکنہ فیصلوں کے خلاف احتجا ج کر رہے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کی ان ممکنہ پالیسوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں جن سے خواتین، ہسپانوی، میکسیکن، اور مسلمانوں سمیت ددیگر اقلیتوں کے حقوق غصب ہونے کا خدشہ ہے۔
اگرچے کچھ دن میں یہ مظاہرے ختم ہو جائیں گے اور حکومت اپنے معمول کے فرائض سرانجام دینا شروع کر دے گی۔ لیکن دوبارہ ایسے احتجاج کے ڈر سے کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کوئی بھی متنازعہ فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچے گی کے اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مظاہروں کے ڈر سے صدر ٹرمپ جو کچھ بھی کہتے رہے ہیں ویسا کچھ بھی نہ کر سکیں۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ کچھ انتہائی متنازعہ کر دیں اور آنے والے دنوں میں مظاہروں کی ایک نئی لہر ابھرآئے۔